سعادت حسن منٹو اپنے افسانے‘نطفے میں لکھتے ہیں ۔
خان صاحب:صادق، شریف عورت سے شادی کر کے خدا کی قسم تم پچھتاﺅ گے ۔یہ دنیا ایسی نہیں ہے۔پروردگار کی قسم جس میں شرافت سے شادی کی جائے۔اس میں رنڈی اچھی رہتی ہے ،تم شریف مت بنو۔یاد رکھو اگر تم شریف بن گئے تو صوبہ بدر کر دئے جاﺅ گے ۔تم ہیرا منڈی میں رہو یہاںصرف یہی ایک صوبہ ہے جس میںسے تم بدر نہیں کئے جاسکتے ۔۔۔اپنا گھر یہیں بناﺅ،اس سے بہترجگہ تمھیںاور کوئی نہیں مل سکتی ۔
منٹو صاحب کی برسی سے ایک دن پہلے ختم ہونے والے انقلاب کو منٹو صاحب کی برسی والے دن 18جنوری کولکھنے کی جسارت کر رہی ہوں ۔میں ایک منٹ کو یہ تصور کرنا چاہتی ہوں کہ مولانا طاہر القادری صاحب پاکستان کو واقعتاًناانصافی ، دکھ اور کرپشن سے نجات دلانے گئے تھے ۔ گندے پانی کے جوہڑ میں کنول کھلانے گئے تھے اور ہیرا منڈی کے مکروہ دھندے کوطہارت کروانے گئے تھے ۔ 23دسمبر کو لاہور کے جلسے میں اعلان کرنے کے بعد13 جنوری سے 17جنوری تک لوگوں کواسلام آباد پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے ٹھنڈے ننگے فرش پر بٹھائے رکھ کر ، کسی بھی منجھے ہوئے مولوی کی طرح یا لال مسجد والے مولوی کی طرح بچوں اور عورتوں کو استعمال کر کے اس سارے عمل کو انقلاب کانام دیا اور اسلامی دنیا کا سب سے بڑا اجتماع کہااور خودگرم کیبن میں بیٹھ کراس مجمعے کوحسینی لشکرسے تعبیر کیا جن میں سے اکثریت منہاج القران کے ایسے شیدائیوں کی تھی جن کا دینی علم آنجباب کو سجدہ کرنے کے علاوہ کچھ بھی ناہو، جو حسینی لشکر کی اہمیت اور کرب سے آگاہ بھی نہ ہوں ،اس چار دن کے میلے کوانقلاب کا نام دینے پر بھی میں کوئی اعتراض نہیں کرتی۔حالانکہ میرے نزدیک اتنا وقت اور اتنا تردد تو انقلا ب کے موضوع پر سیمینار کے لئے بھی ناکافی ہے ۔
اب تھوڑا ساعالمی انقلابات کے تناظر میں۔
انقلاب کبھی یوں بتا کر نہیں آتا ،انقلاب ،سیلاب نہیں جس کو آتا دیکھ کر آپ نام سے پکار اٹھیں کہ دیکھو دیکھو انقلاب آگیا ۔ بہت بعد کی تاریخ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ انقلاب تھا ،یا انتشار یا مفاد ۔
انقلاب کی تحریک جو لوگ شروع کرتے ہیں بعد میں وہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر کہاں چلی جائے کوئی نہیں جانتا اور نہ ہی کسی کو پتہ ہوتا کہ انقلاب کدھر کو موڑ کاٹ لے۔ فرانس ، روس یاچائنا ،کہیں دور جائے بغیر ، اس ہندوستان کی بات کرتے ہیں جہاں برطانوی سامراج کے خلاف تحریکیں شروع ہوئیں ۔1857کی ناکامی کے پچاس سال بعد دوبارہ سے تحریکیں شروع ہونے لگیں ۔ وہ اولین مجاہدین جنہوں نے آزادی کے لئے پھانسی کے تختے قبول کئے اوراپنی جوانیاں لوبا ن کی طرح اس انقلاب کی راہ میں دھر دیںاور بعد میںجس کی منزل بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی اور راستہ بھی ۔ بھگت سنگھ سے پہلے لڑنے والے غیر ملکی تسلط سے آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے ۔بھگت سنگھ نے کہا برطانوی سماج سے آزادی اور سوشلزم کے ذریعے سماجی ، معاشی انصاف ۔ اوربعد میں یہ نعرہ تبدیل ہو کر ۔۔۔ہمارا مقصد ایک ایسا انقلاب لانا ہے جو انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال ختم کر دے گا ۔۔۔میں بدل گیا۔
تاریخ نے دیکھا اور بتایا کہ جس انقلا ب کی بنیادمذکورہ بالا نعرہ تھی ، اس کا انجام کیا ہوا ۔ متحدہ آزاد ہندوستان کا خواب لے کر چلنے والے19 سال کے غیر متعصب ،سیکولر بھگت سنگھ اور اس کے نوجوان ساتھیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پہلے ہندوستان مذاہب کی بنیاد پر تقسیم ہو جائے گا۔جس انقلاب کو بھگت سنگھ،سکھ دیو اور راج گرو جیسے جانباز اور دانشور میسر تھے وہ تو ہندوستان کی زمین پربھی کامیاب نہ ہوسکا اور آپ جناب قادری صاحب چار دن میں انقلاب کامیاب کر کے چلے بھی گئے ۔
قادری صاحب آپ کی تحریک میں نہ تو سول نافرمانی کی تحریک جتنا دم تھا اور نہ جذبہ مگر پھر بھی جب گاندھی جی نے اسے اچانک ختم کیا تھا تو ناقدوں نے لکھا تھا کہ : جب کوئی بڑی عوامی تحریک ایسی سیاسی خود کشی کرتی ہے تو پھر ایک طویل عرصے تک کسی نئی تحریک کا پنپنا مشکل ہوجاتا ہے ۔۔۔
۔۔لوگ آپ کو مبارکباد دے رہے ہیں کہ آپ نے اپنی کرامت یا جوش خطابت سے اپنے معتقدین کو چار دن پارلیمنٹ کے سامنے سخت سردی میں دھرنا دیئے رکھنے پر آمادہ رکھا ، پاکستان جیسے بغیر کرنٹ کے ملک میں اتنی سی بھی حرارت اوربجلی پیدا کرنا گو کہ آپ کا بڑا کارنامہ سہی ، لیکن آپ کے حسینی لشکر کااس وزیر ِ اعظم اور صدر سے معاہدہ جنہیں آپ یزید سمجھتے تھے، مصنوعی تنفس پر لگے ہوئے آپ کے پرستاروں کی سیاسی خود کشی ضرور ہے ۔ وہ اب کسی پر خلوص نعرے کے جواب میںبھی متحرک ہونے کے قابل نہیں رہے ۔ پہلے سے بدحال لوگوں کو مزید اندھا ، بہرہ اور گونگا کرنے پر آپ یقینی طور پر مبارک کے مستحق ہیں ۔
مگر سنیں !سعادت حسن منٹوکی برسی ہے اور آپ کا میلہ بھی ختم ہوا ہے۔آپ نے تو حکومت کے ساتھ معاہدے کے بعد تقریر میں جو کچھ بھی کہا ،یہ بھی سنئے کہ منٹو اپنے افسانے میں کیا کہتا ہے :
۔۔اس رنڈی کے بطن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی ، اس کی پیدائش کے چھ مہینے بعدصادق کے دل میں جانے کیا آئی کہ اس نے رنڈی کو طلاق دے دی اور اس سے کہا ۔۔تمھارا اصل مقام یہ گھر نہیں ، ہیرا منڈی ہے ۔جاﺅ اس لڑکی کو بھی ساتھ لے جاﺅ ،اس کو شریف بنا کر میں تم لوگوں کے کاروبار کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا ۔میں خود کاروباری آدمی ہوں ، یہ نکتے اچھی طرح سمجھتا ہوں ،جاﺅ خدا میرے اس نطفے کے بھاگ اچھے کرے ۔لیکن دیکھو اسے نصیحت دیتی رہناکہ کسی سے شادی کی غلطی کبھی نہ کرے ،یہ غلط چیز ہے ۔قادری صاحب آپکے پاکستانی حکومت اور سیاست کے ساتھ معاہدے کو میں صرف صادق کے اپنی طوائف بیوی کودئے گئے مذکورہ بالا مشورے سے مطابقت تو دے سکتی ہوں مگرآپکے انقلاب کے بعدکیبن سے نکلنے والے ٹیکس ڈی فالٹرز ، اور ملزموںکو صادق اور امین نہیں سمجھ سکتی ۔جس الیکشن کو آپ فری اور فئیر بنانے آئے تھے وہ انہی صادق اور امینوں کے ہاتھوں ناچنے والاہے۔ جس نظام کو آپ طہارت کا غسل دینے آئے تھے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا کر جارہے ہیں ۔
یہ دنیا ایسی نہیں ہے۔پروردگار کی قسم، جس میں شرافت سے شادی کی جائے۔اس میں رنڈی اچھی رہتی ہے ،تم شریف مت بنو۔
پاکستان کی سیاست کی حقیقت یہی ہے،شرافت سے کوئی بھی معاہدہ کرنا بے وقوفی ہے ۔ سب کائیاں ، منجھے ہوئے اور پاکستان کے نظام کا اٹل حصہ ہیں ۔۔کامیاب سیاست دان ۔جن کے کاروبار کا خیال آپ کو یوں آیا کہ آپ بھی کا روباری ہیں۔ہیرا منڈی میں انقلاب آسکتا ہو گا مگرپاکستان کی سیاست میں ابھی دور دور تک، ا سکے آثار نہیں ہیں ۔زما نے کی تاریخ اور حالات تو یہی بتاتے ہیں ۔۔ان حقیقتوں سے بالاتر ایک حقیقت آپ کی ۔۔پھونک ۔۔کی ہے ، اس میں کوئی دم ہو تو ہو ۔ اسکے بارے میں میرا علم محدود اور آپ کی قسمت تیز ہے۔آخر کو آپ عام مرُدوں سے باتیں کرتے کرتے سابقہ خواصوں سے معاہدے کرکے جارہے ہیں۔
زندگی چار روز کی ہے ،مگرانقلاب چار روز کا نہیں ہوسکتا ۔۔ اللہ تعالی آپ کی پھونک میں اور برکت دے ۔۔آمین ۔