”ڈاکٹر عبدالقدیر خان اورکوچہ سیاست“ کے عنوان سے گزشتہ کالم شائع ہوا تو مجھے کئی تائیدی اور کئی تنقیدی ای میلز، برقی پیغامات اور ٹیلی فون کالیں وصول ہوئیں۔ قارئین کرام کے ساتھ میں صرف ایک تائیدی اور تنقیدی پیغام شیئر کروں گا۔امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الھدیٰ صدیقی نے میرے کالم کو بہت سراہا اور اسے ایک زبردست تحریر قرار دیا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے میری عقیدت کی انہوں نے تعریف کی اور یہ لکھا کہ محسن پاکستان کیلئے ہر پاکستانی کے دل میں عقیدت کے یہی جذبات موجزن ہیں۔تنقیدی پیغام امریکہ کی ریاست پینسلونیا کے شہر پٹس برگ سے آیا۔ اسلام اور پاکستان کی محبت میں سرشار ایک نوجوان ڈاکٹر بلال حسین نے سلام کے بعد لکھا کہ آپ کا کالم اچھا تھا مگر آپ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کوچہ¿ سیاست سے دور رہنے کا جو مشورہ دیا بعینہ وہ مشورہ 1960ءکی دہائی میں سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اس وقت جماعت اسلامی کے امیر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کو دیا تھا۔ایوب خان نے مولانا سے کہا کہ آپ پارسا اور علمی شخصیت ہیں آپ کیلئے ایک اچھی دینی یونیورسٹی کا بندوبست کردیتے ہیں۔ سیاست ایک گندہ کھیل ہے آپ اس سے اجتناب فرمائیں۔اس پر مولانا نے جواب دیا تھا کہ جنرل صاحب یہ سیاسی گندگی صاف کرنا ہی تو ہمارا مشن ہے۔نوجوان ڈاکٹر نے مزید لکھا ہے کہ سبحان اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جماعت اسلامی یا مسلم لیگ(ن) میں مرشد یا مشیر کی حیثیت سے بیک وقت کیسے رہنمائی کرسکتے ہیں۔ایک وقت میں ایک شخص مرشداور مشیر کیسے بن سکتا ہے۔نیز یہ دونوںجماعتیں انہیں اس حیثیت میں کیسے قبول کریں گی۔ڈاکٹر بلال نے آخری سطر میں طنزیہ نشتر سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ واہ!ایک شخص سینٹ کا رکن بن کر فادر آف دی نیشن کیسے بن سکتاہے۔ میں ڈاکٹر بلال کے جذبات کی قدر کرتا ہوں اور کم و بیش مجھ سمیت ہر پاکستانی کے خیالات ایسے ہی ہیں مگرڈاکٹر عبدالقدیر خان اور مولانا مودودی میں فرق یہ ہے کہ مولانا کے پیچھے تقریباً تین دہائیوں کی شبانہ روز محنت کا ثمر ایک منظم اور متحرک جماعت تھی جس کی وہ قیادت کر رہے تھے وہ کوچہ¿ سیاست کے گرم سرد چشیدہ تھے وہ قیدو بند کی صعوبتوں سے گزرچکے تھے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کیلئے پلک جھپکنے میں ایک ایسی جماعت قائم کرلیناممکن نہیں۔ان کی صحت بھی اس قابل نہیں کہ وہ نگرنگر،شہر شہر اور قریہ قریہ اپنا پیغام لیکر پہنچیں اور عوام کو اپنا ہمنوا بنائیں ۔سینٹ کا ادارہ ایک معزز ادارہ ہے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسی واجب الاحترام شخصیت کے آنے سے اور قدم قدم پر قوم کی رہنمائی کرنے سے اس ادارے کی حقیقی اہمیت و حیثیت اجاگر ہوجائیگی۔ اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی پرانی تاریخی و سیاسی روایت سے نجات حاصل کریں اورجمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے نہ اترنے دیں۔ انتخاب سے پہلے احتساب یا انتخاب سے پہلے اصلاحات اگر ایک سازش نہیں تو یہ ایک تخیلاتی سوچ ضرور ہے۔حکمرانوں اور سیاست دانوں کا قدم قدم پر احتساب ضرور ہوناچاہئے سیاست دان جرنیلوں کا بھی احتساب ہوناچاہئے تاہم اس کلچر کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ عدالت اور احتسابی ادارے اتنے مضبوط ہوں کہ دوران حکومت کسی کو پر مارے کی ہمت نہ ہوں اور سیاست دان ایک پیسے کی کرپشن بھی نہ کرسکیں مگر گرینڈ احتساب اگلے انتخاب کے موقعہ پر ووٹر کریں تاکہ یہ گند صاف ہوجائے اور اس گند کو ہرگز ہرگز قومی ایوانوں میں نہ پہنچنے دیاجائے۔ابھی تک ہمارے ہاں جو ماڈل چل رہا ہے اس کی صورت کچھ یوں ہے۔تقریباً دس بارہ سال ایک جمہوری سیٹ اپ چلتا ہے۔اس دوران سیاست دان خطا پر خطا کرتے ہیں۔ اپنے جوڑ توڑ سے محلاتی سازشوں کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں اور پھر جب وہ دست و گریباں ہوتے ہیں تو تاک میں بیٹھے ہوئے صیاد کو موقع مل جاتا ہے اور وہ میرے عزیز ہم وطنو! کہہ کر اور اصلاحات کے نام پر قوم کی گردنوں پر سوار ہوجاتا ہے کہ کوئی تین ماہ کے نام پر کوئی تین سال کے نام پر دس بارہ سال گزار جاتا ہے۔اس طرح سازش رنگ لے آتی ہے اور ہردس بارہ برس کے بعد مارشل لاءہمارا مقدر بن جاتا ہے۔ پاکستان میں پہلا مارشل لاء1958 میں لگااس سے پہلے جمہوری عمل کو نہ چلنے دیا گیا۔نام نہاد سیاست دانوں نے دستور ساز اسمبلی کو توڑا اور ایک مفاد پرست اور زمانہ ساز جسٹس نے حکومت کی ہاں میں ہاں ملائی اور یوں اس اسمبلی کا فاتحہ پڑھ دیا گیا پھر ایوب خان نے اپنی اصلاحات کا ڈنکا بجایا دو تین سال یہ ڈرامہ جاری رہا پھر اس نے ایک فرد واحد کی حیثیت سے 1962 کا صدارتی دستور دیا جسے ہر محب وطن سیاست دانوں نے ناچار تسلیم کر لیا۔ایوب خان جب پی این اے کی تحریک کے نتیجے میں ساری جمہوری اصلاحات ماننے پر تیار ہوگئے تو یحییٰ خان مارشل لاءنافذ کرکے مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہوگئے۔ اس طرح دس گیارہ برس کے بعد مارشل لاءنافذ کرنے کی روایت برقرار رہی۔یحییٰ خان کے دور اقتدار میں سیاست دانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور باہم دست و گریباں ہونے کی بناءپر آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی باقی ماندہ پاکستان میں برسر اقتدار آگئی تو ہر جماعت نے خلوص دل کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور ایک متفقہ اسلامی و جمہوری دستور بنادیا۔بھٹو صاحب نے سیاسی تیز رفتاری کی انتہاءکردی قومیانے کی پالیسی اپنا کر انہوں نے معیشت تباہ کردی اور سیاسی انتقام کو اتنا عام کیا کہ اس دوران ملک میں دس گیارہ انتہائی واجب الاحترام سیاست دان قتل کردئیے گئے۔1977 کے انتخابات میں انہوںنے دھاندلی کی اور یوں پس پردہ سازشوں کیلئے انہوں نے راستہ ہموار کیا کہ 1977 میں پھر مارشل لاءلگ گیا۔اسکے بعد ایک اور مارشل لاءآیا جو1988 میں جنرل ضیاءالحق کی ایک فضائی حادثے میں موت پر اختتام پذیر ہوا پھر دس برس تک سیاست دان دست و گریبان رہے۔کرپشن کا دور دورہ رہا ایک دوسرے کی حکومتیں توڑی جاتی رہیں۔ ایک دوسرے کو کبھی آٹھویں ترمیم کے ہتھیار سے کبھی عدالتی فیصلوں کی رو سے نیچا دکھایاجاتا رہا۔سیاست دانوں کی اس چپقلش کا ایک بار پھر وہی انجام ہوا۔اب پھر حالات کو اسی نہج پر پہنچایاجارہا ہے۔گزشتہ پانچ برس پیپلز پارٹی کے پاس مکمل اقتدار تھا مکمل اختیار تھا۔وہ سیاہ و سفید کی مالک تھی مگر اس میں زیادہ سے زیادہ مال اکٹھا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔ پورے پاکستان میں کسی شہری کی زندگی محفوظ نہیں تھی۔ایک طرف بھتہ خور اور قبضہ مافیا کے خونخوار معصوم شہریوںکو خون میں نہلا رہے ہیں اور دوسری طرف فرقہ پرستی کے نام پر لہو بہایا جارہا ہے۔اغوا برائے تاوان کی وارداتیں زوروں پر ہیں 12 روپے کلو والا آٹا 40روپے فی کلو ہوگیا ہے۔بے روزگاری عروج پر ہے جس کے نتیجے میں مایوسی اور خودکشی کی شرح میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں نواز شریف فرماتے ہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرانے کی سازشیں ہورہی ہیں۔ ہمیں اتفاق ہے کہ یہ غلط ہے ہرگز سازش نہیں ہونی چاہئے ۔مارشل لاﺅں کا خاتمہ،آمریتوں کا خاتمہ، سازشوں کا خاتمہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جب سیاستدان اپنے رویے کی اصلاح کریں گے لوٹ مار سے اجتناب کریں گے اور باہم دست و گریبان نہیں ہونگے۔