او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کیجانب سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت اور وزیر خارجہ کا ٹھوس موقف

مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت نہیں مل سکتی
او آئی سی رابطہ گروپ نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ قاہرہ میں منعقدہ او آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کے اجلاس میں گزشتہ روز وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بھارت کی سکیورٹی فورسز مقبوضہ کشمیر میں حراستی قتل‘ جنسی زیادتیوں اور جعلی پولیس مقابلوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ پاکستان کشمیر ایشو پر بھارت کے ساتھ مذاکراتی عمل میں شامل ہوا ہے اور ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانا چاہتا ہے‘ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے تنازعہ کا حل چاہتا ہے۔ انہوں نے کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد کی حمایت کرنے پر او آئی سی کے رکن ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ کشمیر رابطہ گروپ کے اس اجلاس کی مشترکہ صدارت کرتے ہوئے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اکمل الدین احسان اوگلو نے بھی تنظیم کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ حق خودارادیت کے حصول کیلئے کشمیریوں کی جدوجہد کی حمایت کی جائیگی جس کی یو این سلامتی کونسل کی قراردادوں میں توثیق کی گئی ہے۔ اجلاس میں ترکی‘ سعودی عرب اور نائیجیریا کے نمائندوں نے بھی یو این قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ صدر آزاد جموں و کشمیر سردار محمد یعقوب نے اجلاس کے شرکاءکو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اگرچہ کشمیر ایشو او آئی سی کے اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔ اسکے باوجود کشمیر رابطہ گروپ کی میٹنگ میں جس تفصیل کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی گئی اور وزیر خارجہ پاکستان حنا ربانی کھر سمیت اجلاس کے شرکاءنے یو این قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا‘ اس سے جدوجہد آزادی میں بے بہا قربانیاں دینے والے کشمیری عوام کے حوصلے بھی بڑھیں گے اور انکے موقف کو بھی تقویت حاصل ہو گی جبکہ کشمیر ایشو کو او آئی سی کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہ کرنے سے بادی النظر میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ امریکہ کے زیر اثر او آئی سی کے رکن ممالک کشمیر ایشو پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ اب جس زوردار طریقے سے او آئی سی رابطہ گروپ نے کشمیر ایشو کو اجاگر کیا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی نشاندہی کی ہے اور یو این قراردادوں کی روشنی میں اس دیرینہ مسئلہ کے حل کی ضرورت پر زور دیا ہے‘ اس سے توقع کی جانی چاہیے کہ او آئی سی کے اجلاس میں اب کشمیر ایشو نظرانداز نہیں ہو سکے گا۔ اگر او آئی سی کی جانب سے باضابطہ قرارداد منظور کرکے اقوام متحدہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کا تقاضا کیا جائے تو عالمی دباﺅ کے پیش نظر بھارت کشمیری عوام کا حق خودارادیت تسلیم کرنے پر مجبور ہو گا۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان بھارت سازگار تعلقات اور علاقائی سلامتی مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ہی منسلک ہے جبکہ یہ مسئلہ بھارت کا اپنا پیدا کردہ ہے جس نے کشمیر میں استصواب کیلئے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کے بجائے وادی¿ کشمیر پر غاصبانہ تسلط جمالیا اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارتی ریاست کا درجہ دے کر جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام پر اپنی سکیورٹی فورسز کے ذریعے مظالم کی انتہاءکر دی اور پاکستان پر دراندازی کے الزامات عائد کرتے ہوئے اسے کشمیری عوام کی عملی حمایت سے روکنے کی کوششیں کیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا کی آنکھوں سے ہرگز اوجھل نہیں‘ جبکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی سروے رپورٹوں میں مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کی نشاندہی کرکے دنیا کے سامنے بھیانک بھارتی چہرہ بے نقاب کیا جبکہ ان رپورٹوں کی بنیاد پر ہی یورپی یونین نے بھارت پر تجارتی پابندیاں عائد کیں۔ اس تناظر میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے جبر و تسلط کے دوران نہتے‘ بے گناہ کشمیری عوام پر ڈھائے جانیوالے مظالم کا دنیا کے سامنے کوئی جواز پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ دنیا اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ پاکستان بھارت مذاکرات کی میز کشمیر ایشو کا تذکرہ ہوتے ہی خود بھارت کی جانب سے الٹائی جاتی رہی ہے جس سے کشمیر کے معاملہ میں اسکی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب وہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک کرنے کو تیار نہیں تو پھر مذاکرات کی میز پر اسے یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے پر کیسے قائل اور آمادہ کیا جا سکتا ہے؟ اسی پس منظر میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد بار ہونیوالے پاکستان بھارت مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکا جبکہ بھارت نے ان مذاکرات کو ہمیشہ پاکستان پر دباﺅ ڈالنے کیلئے استعمال کیا ہے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے خود انتہائی کشیدگی کی فضا پیدا کرکے مذاکرات کا دروازہ بند کیا اور وزیر خارجہ پاکستان کی سربراہی میں بھارت میں موجود پاکستانی وفد کو ملک واپس جانے پر مجبور کیا۔ اب جبکہ مذاکرات کی فضا سازگار ہو رہی تھی اور خود بھارت کی جانب سے کشمیر سمیت تمام ایشوز پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا جا رہا تھا‘ بھارت نے دانستہ طور پر کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر یکطرفہ فائرنگ کی اور جب پاکستان کی جوابی دفاعی کارروائی پر بھارتی فوج کا جانی نقصان ہوا تو اس کا پروپیگنڈہ کرکے سرحدی کشیدگی انتہا کردی۔ بھارتی آرمی چیف نے بلواسطہ طور پر جنگ کی دھمکی تک دے ڈالی جبکہ بھارتی وزیراعظم منموہن نے اپنی ہی پیدا کردہ کشیدہ صورتحال کا بہانہ بنا کر پاکستان کے دورے سے معذرت کرلی۔ حد تو یہ ہے کہ بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں باقاعدہ اشتہاری مہم چلا کر ایٹمی جنگ کے خطرات کا پروپیگنڈہ کیا جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا جو کشمیر پر تسلط برقرار رکھنے کی بھارتی سازشوں کی ہی عکاسی کرتا ہے۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے او آئی سی رابطہ گروپ کے اجلاس میں بھی کنٹرول لائن پر بھارتی جارحانہ کارروائیوں سے پیدا ہونیوالی کشیدہ صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور بھارتی قیادت کے معاندانہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ کے مغربی مبصرین کے ساتھ ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات کیلئے تعاون پر تیار ہے۔ انہوں نے او آئی سی کو بھی پیشکش کی کہ وہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں سے متعلق واقعات کی چھان بین کیلئے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھجوانا چاہے تو پاکستان اس کا خیرمقدم کریگا۔ اب اگر بھارت اقوام متحدہ اور او آئی سی کے ساتھ فیکٹ فائنڈنگ کے معاملہ میں کسی تعاون پر آمادہ نہیں ہوتا تو اس سے بخوبی اندازہ ہو جائیگا کہ بھارت کو علاقائی امن و سلامتی مقصود ہی نہیں‘ چنانچہ وہ سیدھے سبھاﺅ مسئلہ کشمیر حل کرنے اور کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کی راہ پر نہیں آئیگا جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر علاقائی امن و سلامتی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت نے کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی اور کشمیری عوام پر بھارتی فوجوں کے مظالم برقرار رہے تو اس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کو بھی سخت خطرہ ہو گا۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی¿ کشمیر کے موقع پر بھی پاکستان کی جانب سے حکومتی اور عوامی سطح پر بھرپور انداز میں کشمیر ایشو کو اجاگر کیا گیا اور اب او آئی سی رابطہ گروپ کی میٹنگ میں بھی وزیر خارجہ نے پراعتماد لہجے میں کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف کا اعادہ کیا ہے جس کے نتیجہ میں عالمی برادری میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کیلئے آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ اگر ہماری جانب سے یہ دباﺅ برقرار رکھا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کشمیری عوام اپنی آزادی کی منزل حاصل کر لیں گے۔ ہمیں بہرصورت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیر میں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے رہنا چاہیے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...