آگے کی منزلوں کا سفر اب شروع ہو
اب تو اندھیرے ختم ہوں سورج طلوع ہو
آتے دنوں میں کوئی خوشی کی نوید ہو
مایوسیوں میں اور نہ شدت مزید ہو
تنگ آچکے ہیں اب تو بہت دکھ اُٹھا کے ہم
ناکامیوں کے درد کو ہونے دو کچھ تو کم
بہتر ہے اِک طرف سبھی دھرنے دھرے رہیں
ہو رقصِ نوبہار گلستاں ہرے رہیں
کس چیز کی کمی ہے یہاں کچھ کمی نہیں
آنکھوں میں صرف شرم کی باقی نمی نہیں
ہم سب کبھی تو خود سے کریں صرف اِک سوال
کیوں پڑ چکا ہے ملک میں غیرت کا قحط و کال
کیوں فرض شناسی کے تقاضے بھُلا دئیے
کیوں ہم نے جیتے جاگتے جذبے سُلا دئیے
قائدؒ کے بعد ایک بھی قائد نہ مل سکا
کیوں پُھول ایک بھی نہ خرابے میں کھِل سکا
دراصل ہم خراب ہوئے ،حرص و ہوس میں
آزاد رہ کے قید ہیں لالچ کے قفس میں
آئی ایم ایف کے قرض سے پاتے نہیں نجات
ہم کو ہے پیارا فرض سے بڑھکر مفادِ ذات
ہم کو خودی سے جینا ہے گر آج سوچ لیں
سب دشمنوں کی گردنیں پل میں دبوچ لیں
اس کے لئے ضروری ہے پاﺅں پہ ہوں کھڑے
کرلیں وہ سارے کام ادھورے جو ہیں پڑے
مشکل ہے کیا کروڑوں اگر ہم نظربنیں
تعمیر کے سفر میں سبھی ہمسفر بنیں
لازم ہے نسل نو پہ سنبھالے وہ یہ وطن
مشترکہ کوششوں سے ہرا ہوگا یہ چمن