ہموطن۔ ہمسفر ہم نظر

Feb 08, 2013

ریاض الرحمن ساغر

آگے کی منزلوں کا سفر اب شروع ہو
اب تو اندھیرے ختم ہوں سورج طلوع ہو
آتے دنوں میں کوئی خوشی کی نوید ہو
مایوسیوں میں اور نہ شدت مزید ہو
تنگ آچکے ہیں اب تو بہت دکھ اُٹھا کے ہم
ناکامیوں کے درد کو ہونے دو کچھ تو کم
 بہتر ہے اِک طرف سبھی دھرنے دھرے رہیں
ہو رقصِ نوبہار گلستاں ہرے رہیں
کس چیز کی کمی ہے یہاں کچھ کمی نہیں
آنکھوں میں صرف شرم کی باقی نمی نہیں
 ہم سب کبھی تو خود سے کریں صرف اِک سوال
 کیوں پڑ چکا ہے ملک میں غیرت کا قحط و کال
کیوں فرض شناسی کے تقاضے بھُلا دئیے
کیوں ہم نے جیتے جاگتے جذبے سُلا دئیے
قائدؒ کے بعد ایک بھی قائد نہ مل سکا
 کیوں پُھول ایک بھی نہ خرابے میں کھِل سکا
دراصل ہم خراب ہوئے ،حرص و ہوس میں
آزاد رہ کے قید ہیں لالچ کے قفس میں
آئی ایم ایف کے قرض سے پاتے نہیں نجات
ہم کو ہے پیارا فرض سے بڑھکر مفادِ ذات
 ہم کو خودی سے جینا ہے گر آج سوچ لیں
سب دشمنوں کی گردنیں پل میں دبوچ لیں
 اس کے لئے ضروری ہے پاﺅں پہ ہوں کھڑے
کرلیں وہ سارے کام ادھورے جو ہیں پڑے
مشکل ہے کیا کروڑوں اگر ہم نظربنیں
تعمیر کے سفر میں سبھی ہمسفر بنیں
لازم ہے نسل نو پہ سنبھالے وہ یہ وطن
مشترکہ کوششوں سے ہرا ہوگا یہ چمن

مزیدخبریں