ڈاکٹر محمد اجمل نیازی
عاصمہ جہانگیر کیلئے نگران وزیراعظم کی بات اتنی ہورہی ہے کہ عنقریب نگران وزیراعظم عاصمہ جہانگیر کے نعرے گونجنے لگیں گے۔ پہلی بار ”وزیراعظم نوازشریف“ کے نعرے گونجے تھے اور اب تک گونج رہے ہیں۔ نوازشریف نے ہی عاصمہ جہانگیر کا نام نگران وزیراعظم کے طور پر تجویز کیا ہے۔ بلکہ ”نامزد“ کیا ہے۔ پہلے بھی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے ایک عمررسیدہ بوڑھے شخص جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کا نام دیا تھا جو صدر زرداری نے سوچے سمجھے بغیر بہت سوچ سمجھ کر قبول کرلیا۔ ان کیلئے کسی نے اعتراض نہ کیا تھا، اب ان کیلئے کچھ اعتراض آنے شروع ہوگئے ہیں البتہ عاصمہ جہانگیر کیلئے ابھی سے اعتراض آرہے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ نگران وزیراعظم بن جائیں گی....؟ یہ بات صدر زرداری کیلئے بہت قابل قبول ہوجاتی ہے۔
میں تو حیران ہوں کہ آخر عاصمہ جہانگیر نگران وزیراعظم کیوں بننا چاہتی ہیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ وہ ایک بار پھر صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بن جائیں۔ مجھے ان سے اختلاف بھی ہے مگر انکا اعتراف بھی ہے۔ وہ ایک بہادر اور بے باک خاتون ہیں۔ خاتون کیلئے بہادر ہونا ایک انہونی بات ہے جو حوصلہ افزاءہے مگر اس کیلئے پاکستان اور اسلام کی مخالفت ضروری ہے۔ اس بہادری میں ایسے کام بھی عاصمہ وغیرہ کرجاتی ہیں جو بزدلی میں بھی نہیں کئے جاسکتے۔ ایسے کئی کام عاصمہ کے کریڈٹ پر ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ نگران وزیراعظم بننا اس کیلئے کوئی کریڈٹ نہیں ہے۔ ویسے یہ بات کوئی ڈس کریڈٹ بھی نہیں، مگر اصل بات کریڈیبلٹی کی ہے۔ ہمارے ملک میں اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ جب کسی آدمی کی کچھ ساکھ بن جاتی ہے تو پھر وہ خود ہی راکھ اڑانا شروع کردیتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی بھی اب راکھ اڑانے کا کام کررہے ہیں۔ صدر زرداری نے انہیں چیف الیکشن کمشنر بنا دیا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ اب الیکشن نہیں ہوں گے؟ دیانتدار چیف الیکشن کمشنر تو کسی سیاستدان کو ”وارا“ نہیں کھاتا۔
نگران وزیراعظم تین سال کیلئے آنا ہے تو وہ عاصمہ جہانگیر نہیں ہونگی۔ ابھی تو یہ طے ہی نہیں ہوا کہ الیکشن ہوں گے کہ نہیں ہونگے۔ کسی الیکشن سے اس قوم کا کچھ نہیں بدلا۔ ایک بات دانشور دوست شاعر حسین مجروح نے بہت اچھی کی ہے۔ پاکستانی قوم ایک ایسی ٹیوب کی طرح ہے جس پر اب پنکچر لگنے کی کوئی گنجائش نہیں، پھر بھی ہمارے سیاستدان، افسران اور حکمران مزید پنکچر لگائے جا تے ہیں، پنکچر پر پنکچر.... ٹیوب بدلنے کی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ جمہوریت دشمنی ہے۔ نظام تبدیل کرنا چاہتے ہیں، اس ”نظام“ نے ہر شعبے میں ہر طرح کی بدنظمی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لوٹ مار، کرپشن، ظلم، بے انصافی، قتل و غارت، ذلت، اذیت، بے عزتی، بدنامی، بدحالی، بیروزگاری، غربت، غلامی اور ایسی بہت سی برائیوں کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ یہ الیکشن تو 2008ءمیں بھی ہوئے تھے۔ پچھلے پانچ سالوں میں اس قوم کا جو برا حال ہوا ہے وہ پچھلے پچاس سالوں میں نہ ہوا تھا۔ 2013ءمیں اسی طرح کے الیکشن ہونگے تو کیا ہوگا؟ ہم الیکشن کیخلاف نہیں مگر وہ الیکشن ہوں، سلیکشن اور الیکشن میں فرق مٹ گیا ہے۔ ہر کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس الکیشن میں پھر یہی لوگ آئیں گے جو آتے رہتے ہیں۔
یہاں مارشل لاءبھی لگے تو بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ حکمران بن کے جرنیل اور سیاستدان ایک جیسے ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت یا آمریت میں کوئی فائدہ قوم کا نہیں ہوا۔ سچی جمہوریت نہ پکی آمریت۔ یہاں جمہوری آمریت رہی اور آمرانہ جمہوریت۔ جب جنرل پرویز مشرف صدر تھے تو سارے عہدے سیاستدانوں کے پاس تھے۔ جب کوئی سیاستدان حکمران رہا تو اس نے اپنے بال بچوں کے علاوہ جرنیلوں کے بیٹوں کو بھی وزیر شذیر اور ممبر وغیرہ بنوالیا۔ کسی فوجی حکمران نے اپنے خاندان کو سیاست اور حکومت میں نہیں آنے دیا۔ صرف یہی نہیں کہ صدر زرداری، نوازشریف، شہبازشریف، مولانا مفتی محمود، خان عبدالولی خان کا بیٹا ہی سیاست و حکومت میں ہوگا، بلکہ دور کے رشتہ داروں میں بھی یہی رواج ہے۔ برادرم سہیل ضیاءبٹ کا بیٹا عمر ضیاءبٹ بھی ایم این اے ہے، ماشاءاللہ؟
عاصمہ جہانگیر کس طرح کے جمہوری نظام میں نگران وزیراعظم بنیں گی، اسے نوازشریف نے نامزد کیا ہے اور شائد یہی بات اسکے حق میں نہیں ہے؟ کہتے ہیں کہ وہ پروانڈیا ہے اور نوازشریف بھی پروانڈیا ہے۔ صدر زرداری اور عمران خان کے بھی بہت روابط بھارت میں ہیں مگر عمران والے عاصمہ کی مخالفت کیوں کررہے ہیں؟ کہتے ہیں عاصمہ اسلام مخالف بھی ہیں ان کے میاں اور ان کے علاوہ اور بھی ہوں گے جو حضور کی ختم نبوت کے قائل نہیں۔ اور بھی ہونگے مگر جیسے کوئی اس طرح معروف ہوجاتا ہے تو وہ بدنام بھی ہوجاتا ہے۔ امتیاز عالم اور نجم سیٹھی کو نگران وزیراعظم کیلئے شاید نوازشریف اگلے پانچ سال بعد نامزد کردیں۔ اس طرح کے الیکشن میں تو ہمیشہ نوازشریف یا کوئی اور شخصیت ایسے ہی نگران وزیراعظم نامزد کرتا رہے گا جیسے وزیراعظم ویسے ہی نگران وزیراعظم۔ وزیراعظم جھگڑا ہی نہیں کہ انکی باریاں مقرر ہیں۔ اب نگران کیلئے بھی باریاں مقرر کردی جائیں گی۔
مجھے ایک شکایت اپنے پسندیدہ سیاستدان معراج خالد سے ہے، وہ بے عمل آدمی تھے۔ جو آدمی اچھے کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا وہ برے کام کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔ کسی کا دھیان فخرو بھائی کی طرف نہیں جانا چاہئے۔ میں نے معراج خالد سے کہا تھا کہ چند مہینے نگران حکومت بڑھا لیں اور کوئی نظام دے جائیں، جمہوریت کو ٹھیک کرجائیں، جعلی اور جھوٹی جمہوریت آمریت سے بھی بری ہوتی ہے مگر وہ بے حسی کی حد تک بے بس تھے۔ یہ طے تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو کی حکومت ٹوٹی تو نوازشریف آئیگا اور نوازشریف کی حکومت ٹوٹی تو بے نظیر بھٹو آئیگی۔ کئی کالم نگاروں کے پسندیدہ صدر اسحاق نے بے نظیر بھٹو کی حکومت اسکی اور اسکے خاوند کی کرپشن پر توڑی تھی اور نوازشریف کی حکومت بھی کرپشن کیلئے ہی توڑی تھی۔ پہلی بار صدر اسحاق نے زرداری صاحب کو جیل بھجوایا اور نوازشریف کی حکومت توڑنے کے بعد اسے جیل سے بلاکے وزیر بنایا۔ تب کسی نے نگران حکومت پر اعتراض نہ کیا تھا۔ اب اعتراض کے باوجود ایسی ہی نگران حکومت بنے گی اور ویسے ہی الیکشن ہونگے تو عاصمہ جہانگیر نگران وزیراعظم بن کے کیا کریں گی؟
اب ہمارے ہاں نگران وزیراعظم بنانا مشکل اور ایک طے شدہ الیکشن کے بعد نالائق وزیراعظم بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ اس پر کوئی اعتراض کرسکتا ہے۔ انصار عباسی نے بھی نہیں کیا۔ یہ جعلی جمہوریت کا فیض ہے بلکہ انتقام ہے۔ عاصمہ اگر اتنی بے تاب ہیں تو لگتا ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتی ہیں؟ انہوں نے پاکستان بار ایسوسی ایشن کا صدر بن کے کیا کرلیا تھا کہ اب کچھ کرلیں گی۔ انہوں نے ججوں اور جرنیلوں پر تنقید کرلی مگر جج بھی ہیں اور وہ فیصلے کررہے ہیں۔ عاصمہ سوائے بیان دینے کے کیا کرسکتی ہیں۔ جرنیل بھی ہیں، وہ مارشل لاءلگائیں تو بدنام نہ لگائیں تو بھی بدنام۔ وہ کیا کریں، کیا وہ بھارت کی مخالفت چھوڑ دیں۔ آخر کچھ سیاستدان کچھ وکیل ان سے کیا چاہتے ہیں؟ ایک بار بھارت نے عاصمہ جہانگیر کو ویزہ نہیں دیا تھا۔ انہوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا۔ اگر پاکستان نے اس کیلئے بھارت کے ویزے پر کوئی اعتراض کیا ہوتا تو انہوں نے حشر برپا کردیا ہوتا۔