حافظ محمد عمران
ایک زمانہ تھا جب وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیاں عروج پر ہوتی تھیں۔ نصابی سرگرمیوں کے اس دور میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے اپنے شاندار کھیل سے دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کیا۔ 1952ء میں جب پاکستان کرکٹ ٹیم پہلی مرتبہ بھارت کے دورے پر گئی تو لکھنؤ کے مقام پر قومی ٹیم نے بھارت کو شکست دیکر ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی پہلی فتح حاصل کی اس تاریخی فتح میں حصہ لینے والے 11 کھلاڑیوں میں سے 7 کھلاڑیوں کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور اور اسلامیہ کالج لاہور سے تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کم ہوتی گئیں۔ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے ختم ہونے سے کھیلوں کی بنیاد پر داخلے ختم ہوئے بعدازاں مختلف محکموں نے بھی کھیلوں کی سرپرستی ختم کر دی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مختلف کھیلوں میں کامیابیوں کے سلسلے کو جاری نہ رکھ سکے۔ نوجوان کھیل کے میدان سے دور ہوا تو اس کے مضر اثرات شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ لیکن اب حالات میں تبدیلی کی امید پیدا ہوئی ہے۔ کھیلوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی طرف سے کالجز اور یونیورسٹیوں میں سپورٹس کوٹہ پر داخلے میں اضافے کی بات شدت سے کی جا رہی ہے۔ اور جامعات میں بھی کھیلوں کی سرگرمیوں کے انعقاد پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی ضمن میں گذشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی میں افغانستان انڈر 19 اور پنجاب یونیورسٹی کی ٹیموں کے مابین ایک میچ کھیلا گیا۔ مہمان افغان ٹیم نے پنجاب یونیورسٹی کے خلاف 90 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ مہمان ٹیم نے مقررہ اوورز میں 260 رنز سکور کئے۔ عثمان خان 86 یونس خان 51 اور حسن 41 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ یونیورسٹی ٹیم کے کپتان احمد ا کرم چودھری نے چار اور ماجد علی نے تین کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ 260 رنز کے جواب میں میزبان ٹیم 170 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔ بابر منظور 35 اور احمد اکرم 34 رنز کے ساتھ نمایاں رہے۔ افغانستان کی جانب سے شرف الدین اشرف نے پانچ عبداللہ عادل اور شاہد اللہ نے دو‘ دو کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس موقع پر شائقین کرکٹ اور یونیورسٹی کے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد دیکھنے کے لئے گراؤنڈ میں موجود تھی۔ ملی نغمے بھی ماحول کو گرماتے رہے اور پشتو گانوں پر ڈانس سے بھی حاضرین خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران گراؤنڈ میں موجود رہے ان کے ساتھ معروف کالم نگار سیاستدان اکرم چودھری جامعہ پنجاب کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ افغان ٹیم اور یونیورسٹی کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ٹیسٹ کرکٹرز عمران فرحت‘ اعزاز چیمہ‘ سابق ٹیسٹ کرکٹرز منظور الٰہی‘ ظہور الٰہی‘ اشرف علی‘ اولمپئن خواجہ جنید‘ انٹرنیشنل کرکٹر شاہد انور اور لاہور ڈسٹرکٹ ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر بابر انصاری بھی گراؤنڈ میں موجود تھے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے میچ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ پنجاب کی تاریخ میں یہ اپنی طرز کا منفرد کرکٹ میچ ہے جب کوئی غیر ملکی ٹیم یہاں کھیل رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کو کھیل کے زیادہ سے زیادہ مواقع دیکر ہم ان کی بہتری ذہنی و جسمانی نشوونما کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے بتایا کہ افغان ٹیم کے ساتھ میچ کا آئیڈیا ان کے قریبی دوست اکرم چودھری کا تھا۔ اس میچ سے یقیناً جامعہ پنجاب کے کھلاڑیوں کو بہت فائدہ ہو گا اور ہم ایسے مقابلوں کا سلسلہ جاری رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
یونیورسٹی ٹیم کے کپتان احمد اکرم نے کہا کہ وہ میچ کے انعقاد سے خوش اور مسلسل محنت سے قومی ٹیم کی نمائندگی کا عزم رکھتے ہیں۔ اعزاز چیمہ نے کہا کہ یونیورسٹی کے طالب علموں کو کھیلتے دیکھ کر اور شائقین کے چہروں پر خوشی دیکھ کر میچ کا لطف دوبالا ہو گیا ہے۔ عمران فرحت کا کہنا تھا کہ اسی جگہ انہوں نے اپنی کرکٹ شروع کی تھی افغان ٹیم کا یونیورسٹی آکر کھیلنا تاریخی لمحہ ہے۔ ایسے مقابلوں کے انعقاد سے ہمیں ناصرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی فائدہ ہو گا۔ اشرف علی کا کہنا تھا کہ ایسے میچوں کی زیادہ سے زیادہ کوریج ہونی چاہئے تاکہ دنیا بھر کو ایک اچھا اور مثبت پیغام جائے۔ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس اقدام کی بھی تعریف کی۔ منظور الٰہی‘ ظہور الٰہی اور شاہد انور نے بھی افغان ٹیم کے پنجاب یونیورسٹی میں آکر کھیلنے کے فیصلے اور اس معاملے میں جامعہ پنجاب کی انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہا۔
میچ کے آغاز سے افتتاح تک شائقین کرکٹ کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مسکراہٹیں تھیں قہقہے تھے ہر طرف خوشیاں تھیں۔ جامعہ پنجاب کے طلبا و طالبات کے کھلے چہرے اور روشن آنکھیں وطن عزیز کے تابناک مستقبل کا پتہ دے رہی تھیں۔ امن و امان اور معیشت کی خراب صورتحال کے باوجود بھی پاکستان کا نوجوان ملک کے مستقبل کے لئے پرامید ہے۔ ضرورت اس درست اور بروقت رہنمائی کی ہے۔ ارباب اختیار اگر تاریخ کا مطالبہ کریں ماضی سے سبق سیکھیں اور تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی تعداد کو بڑھا دیں سپورٹس کلچر پر سنجیدگی سے کام کریں۔ تو وہ وقت دور نہیں جب ایک مرتبہ پھر پاکستان کا کھلاڑی معاشی تفکرات سے آزاد ہو گا اور کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والے کو کھیل کی بنیاد پر اچھے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی ملے گا۔