”سیاست گُزار۔عابد شیر علی!“

 پرنٹ اور الیکٹرانک مِیڈیا پر ڈھیروں خبریں ہیں۔ تو صاحبو!۔
”خبروں کے انتخابات نے رُسوا کِیا مجھے“
کی صورت ِحال سے بچنے کے لئے مجھے انتہائی احتیاط کرنا ہوگی اور احتیاط یہ ہے کہ کم سے کم خبروں کو کالم کا موضوع بنایا جائے۔
”جِیویں ٹِچ بٹناں دی جوڑی“
 خبر ہے کہ حکومت اور طالبان کی نامزد کردہ کمیٹیوں کی ملاقات کے بعد میڈیا کو پابند کر دیا گیا تھا کہ”وہ مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ کو صِرف سُن کر درُست تسلیم کریں گے۔ کوئی سوال نہیں پوچھیں گے“۔جناب عرفان صدیقی نے بتایا کہ ”ہمیں توقع ہے کہ پاکستان کے مفاد میں جو ہوگا ہم (طالبان کی نامزد کردہ کمیٹی سے) منوانے میں کامیاب رہیں گے۔ ایسے ماحول میں بات چِیت ہُوئی کہ ہم ایک ہی کمیٹی کا حِصّہ لگ رہے تھے جو ایک ہی راستے(امن) کے مسافر ہیں۔ یعنی اصل میں دونوں ایک ہیں۔ ایک پنجابی فلمی شاعر نے کہا تھا۔۔
”مَیں تے ماہی اِنج مِل گئے
 جِیویں ٹِچ بٹناں دی جوڑی“
اگر 8ہزار فوجی افسروں/جوانوں اور 42ہزار عام پاکستانیوں کی قُربانی دے کر ایک ہی ملاقات میں امن کے دشمنوں کو رام کر لِیا جائے تو اور کیا چاہیئے؟۔
”کہ جِس کو پیار سے دیکھا۔۔۔!“:۔
خبر ہے کہ وزیرِ اعظم نواز شریف چُولستان میں6فروری کو رات گئے تک کھُلے آسمان تلے الاﺅ کے پاس ضیافت اور محفلِ موسیقی سے لُطف اندوز ہوتے رہے لیکن اپنے معاونِ خصوصی کو نہیں بھُولے۔7فروری کو اخبارات حکومتی اور طالبانی کمیٹیوں کے مذاکرات کی خبروں سے بھرے پڑے تھے تو ایک خبر یہ بھی تھی کہ”جناب عرفان صدیقی کو سابق ڈپٹی وزیرِ اعظم چودھری پرویز الہی کا کمرہ الاٹ کر دیا گیا ہے“۔ جوانی میں کہی گئی میری ایک غزل کا ایک شعر ہے کہ۔۔
”ہمارے حُسنِ نظر کی کرشمہ سازی ہے
کہ جِس کو پیار سے دیکھا وہ بے مثال ہُوا
 کل کلاں جناب عرفان صدیقی کو وزیرِ خارجہ بھی بنادِیا جائے تو وہ اپنے سفارتی دھوبی پٹڑے سے صدر اوبامہ کو پاکستان کے حق میں بھی رام کر سکتے ہیں۔
”امریکی فوج کا کرنل کُتا“:۔
برطانوی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق”طالبان نے امریکی فوج کا ایک ”کرنل“ نامی کُتّا پکڑنے کا دعویٰ کِیا ہے“۔ کُتے کے قبضے سے ایک جی پی ایس ڈِیوائس اور ایک چھوٹا کیمرا بھی برآمد ہُوا ہے۔ کرنل رینک کا امریکی کُتا جنیوا معاہدے کے تحت جنگی قیدی ہے۔ طالبان اُسے امریکی فوج کے حوالے کرنے کے لئے تبادلے میں کیا لیں گے؟۔ فرض کِیا طالبان امریکی کرنل کُتّے کو ہلاک کر دیتے ہیں تو اُس کی ہلاکت یا موت کا”درجہ“ کیا ہوگا، یہ ہمیں مولانا فضل الرحمن سے دریافت کرنا ہوگا کیونکہ مولانا فضل الرحمن یہ ”فتویٰ“ دے چُکے ہیں کہ ”اگر امریکہ کسی کُتّے کو بھی مار دے تو اُسے ”شہید“ کہا جائے گا۔
”ستارہ ستارہ۔ انرجی انرجی“:۔
گذشتہ ایک ماہ سے لاہور میں مقیم گلاسگو کے”بابائے امن“ ملک غلام ربانی اعوان ، مجھے 6فروری کو ہی ایک ”پانچ ستارہ“ ہوٹل کے خُورشید (سُورج) ہال کی اُس تقریب میں لے گئے جہاں”ستارہ گروپ آف انڈسٹریز اور عوامی جمہوریہ چین کی ایک کمپنی کے مابین 300ارب روپے سے، پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کی دستاویزات پر دستخط ہونا تھے۔لیکن گواہ کی حیثیت سے مہمانِ خصوصی خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نہیں آسکے تھے۔ اُن کی جگہ پانی اور بجلی کے وفاقی وزیرِ مملکت عابد شیر علی اور وزیرِ صنعت پنجاب چودھری محمد شفیق دو گواہوں کی حیثیت سے موجود تھے۔ ستارہ گروپ آف انڈسٹریز کے بانی چیئرمین حاجی میاں بشیر احمد (مرحوم) کو اُن کی قومی خدمات پر”ستارہءامتیاز“ کا اعزاز مِلا تھا۔ اُن کا انتقال 5اکتوبر 2013ءمیں ہُوا تھا۔ مَیں اُن دنوں گلاسگو میں تھا اور گورنر پنجاب چودھری محمد سرور بھی گلاسگو میں فیصل آباد کے لوگ زیادہ ہیں۔ حاجی میاں بشیر احمد کے انتقال کی خبر سُن کر وہاں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔ بابائے امن ملک غلام ربانی اعوان تو 1967 سے اپنے دوست کے انتقال پر رو رہے تھے۔”ستارہ انرجی“ کی تقریب میں انہوں نے مجھے ستارہ گروپ آف انڈسٹریز کے چیئرمین میاں محمد ادریس اور اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد انیس سے مِلوایا۔ دونوں بھائی باری باری انکل کہہ کر اُن سے لپٹ گئے اور مجھے بھی احترام کے ساتھ مِلے۔
 خادمِ اعلیٰ پنجاب تو کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے کے لئے بھارتی پنجاب بھی گئے تھے۔"Solar Energy" یعنی سورج سے توانائی حاصل کرنے پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔ سورج سے روشنی لینے والے"Moon" یعنی چاند سے توانائی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ”ستارہ والوں“ میاں محمد ادریس اور میاں محمد انیس کا روشنی (توانائی) کا بحران حل کرنے کا عزم؟۔ مَیں تو وہاں نہیں گیا تھا لیکن رات کے دس بجے بابائے امن نے مجھے فون پر بتایا کہ ”میاں محمد ادریس اور میاں محمد انیس مجھے اور چینی مہمانوں کو گورنر ہاﺅس لے گئے تو گورنر پنجاب نے کہاکہ ”عوامی جمہوریہ چین پاکستان کا واحد دوست مُلک ہے جو پاکستان کی بھلائی کے ہر منصوبے میں ہمارے ساتھ ہے“۔
”سیاست گُزار “عابد شیر علی
6فروری کی رات مَیں نے ایک نیوز چینل پر جناب عابد شیر علی کو آل پاکستان مسلم لیگ کی مرکزی سیکریٹری اطلاعات جنابہ آسیہ اسحق سے ”غزلو غزلی “ ہوتے ہُوئے دیکھا ۔جب آسیہ صاحبہ نے کہا کہ ”شمالی وزیرستان میں طالبان پاکستان کی مسلّح افواج کے نرغے میں ہیں۔ اِس لئے طالبان حکومتِ پاکستان سے مذاکرات کے لئے تیار ہُوئے ہیں“۔ اِس پر عابد صاحب نے کہا کہ”مَیں اِس خاتون کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتا“۔ پھر مُجھے کئی سیاست دانو ںکا یہ مقولہ یاد آیا کہ ”میں تو عبادت سمجھ کر سیاست کرتا/کرتی ہوں“۔ پھر مَیں نے”سیاست گُزار عابد شیر علی“ کی باتیں غور سے سُنیں۔

ای پیپر دی نیشن