تو کیا آپ کا نام سمیع الحق ہے؟
اورجناب کوعرفان صدیقی کہتے ہیں ؟
پہلے دو سوال و جواب تو یقینی طور پر یہی ہوئے ہوں گے، پھرسر کاری رابطہ کار نے پوچھا ہو گا، مولانا، کیا آپ نے اپنے بارے میں میرا کالم پڑھا تھا؟
کونسا کالم، کیا جس سے آپ نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے؟
نہیں، وہ تو فیس بک پر کسی نے من گھڑت کالم شائع کر دیا۔
تو پھر آپ کس کالم کی بات کر رہے ہیں؟
وہ جو اخبار میں چوبیس فروری کو شائع ہوا۔
کیا لکھا آپ نے؟
سرکاری رابطہ کار نے مولانا کی طرف ایک فوٹوکاپی لہرا دی۔مولانا نے کن انکھیوں سے دیکھا کہ پورا بیگ ایسی فوٹو کاپیوں سے بھرا ہوا ہے۔
مولانا نے فوٹو کاپی کو غور سے پڑھا، ایک بار پھر پڑھا اور باربار پڑھا، وہ کوشش کر رہے تھے کہ انہیں غصہ آئے تو بولیں لیکن جب جلال طاری نہ ہو سکا تو بولے، آپ نے تو میری ایسی تیسی فرمائی ہے، اب ا ٓپ کس منہ سے میرے ساتھ مذاکرات کرنے آ گئے ہیں۔
نہیں مولانا، آپ کو غلط فہمی ہوئی ،میںنے تو حکومتی نکتہ نظر پیش کیا ہے، یعنی آپ کو تو کوئی مشن سونپا ہی نہیں گیا اور آپ نے یونہی اس مشن سے علیحدگی اختیار کر لی۔
تو وزیر اعظم نے میرے ساتھ ملاقات کیوں کی تھی؟
وہ توسب کے وزیر اعظم ہیں ، ان کا دروازہ ہر ایک کے لئے کھلا ہے ، آپ اس کھلے دروازے سے اندر چلے گئے۔
یعنی میںنے اس ملاقات کا غلط مطلب لیا اور طالبان سے رابطہ کر کے مثبت جواب سے آگاہ کرنے کے لئے وزیر اعظم کو تین ہفتے لگا تار فون کرتا رہا ، انہوںنے مجھے بلایا ہی نہیں ، پھر بھی آپ کہتے ہیں ان کادروازہ سب کے لئے کھلا ہے۔
میرا خیال ہے کہ آپ نے میرا کالم غور سے نہیں پڑھا ورنہ کوئی شکوہ آپ کی زبان مبارک پر نہ آتا۔
تو آپ خود بآواز بلند سب کے سامنے سنا دیں کہ کیا لکھا ہے تاکہ سند رہے اور اس سے آپ کبھی لاتعلقی کاا ظہار نہ کر دیں۔
سرکاری رابطہ کار یہی تو چاہتے تھے کی کوئی موقع ملے اور وہ مولانا کا کچا چٹھا کھول دیں ، انہوں نے موٹے شیشوں والی عینک آنکھوں پر چڑھائی اور نظریں فوٹو کاپی پر مرکوز کردیں، انہوںنے کہا کہ مولانا دل تھام کر سنئے۔
اور انہوںنے کالم کے اقتباسات سنانے شروع کر دیئے۔
مولا نا سمیع الحق کی وزیر اعظم سے ملاقات اکتیس دسمبرکو ہوئی تھی۔اس کے بعد انہوںنے کسی کو نہیں بتایا کہ طالبان کے کم و بیش پینسٹھ گروپوں میں سے ان کی ملاقات کن لوگوں سے ہوئی۔رابطے کے دوران طالبان نے مذاکرات کے لئے کیا پیشگی شرائط عاید کیں،با ضابطہ مذاکراتی عمل کے لئے حکومت سے کیا مطالبہ کیا جارہا تھا۔اس طرح کے مشن عام طور پر خفیہ رکھے جاتے ہیں۔ثالثی کا کردارادا کرنے والا شخص ا س امر کو یقینی بناتا ہے کہ کہ ٹھوس پیش رفت سے پہلے بات گلی محلوں کا موضوع نہ بنے۔مولانا نے اس احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا۔فوری طور پر پورے جلال و جمال کے ساتھ میڈیا کے سامنے آئے اور قوم کو مژدہ سنایا کہ اس سنگین بحران کے حل کے لئے وزیر اعظم کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی ہے۔اور اب وہ تیشہ فرہاد لے کر جوئے شیر بہا لانے کو نکل رہے ہیں۔
کالم ابھی پڑھا جارہا تھا۔
اگر حضرت کو واقعی یہ اہم مشن سونپا گیا تھا اور وہ خلوص دل کے ساتھ کوئی خدمت بجا لانا چاہتے تھے تو شرط اول یہی تھی کہ وہ میڈیا کی چکا چوندسے دور ، ذوق تصویر و تشہیر سے بے نیاز ہو کر اللہ کی خوشنودی ، پاکستان کی سلامتی،اور عوام کی فلاح و بہبودکے لئے اس کار خیر میںلگ جاتے۔دنیا کو خبر اس وقت ہوتی،جب اس گھنے جنگل سے کوئی راستہ تلاش کر لیا جاتا۔سنجیدہ مذاکرات کی بساط بچھ جاتی،اور دلوںمیں امید و یقین کے چراغ روشن ہو جاتے۔تب میڈیا تحقیق کرتا اور پوری قوم سراغ لگاتی کہ یہ کارنامہ کس مرد کار کے ہنر کا اعجاز ہے۔ کھوج لگانے والوںکے قدم دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی دہلیز تک پہنچتے وہ سب حضرت کے حجرہ خاص کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور حضرت سر جھکا کر شرمائے لجائے انداز میں کہتے۔۔اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔سب اللہ کا کرم ہے۔
مولانانے پوچھا کیا کالم ختم ہو گیا۔
نہیں ،آگے بھی بہت کچھ لکھا ہے لیکن ذرا تند لہجہ ہے ، آپ کو خفگی کا دورہ پڑ سکتا ہے۔
مولانا مسکرائے، اھر ادھر دیکھا، کیمروں کی چکا چوند میںنظریں گاڑیں، درجنوںمیڈیا ہائوسز کے مائیکرو فونز کے جنجال کو کھٹکھٹایا اور بولے ، جو کام میں نہ کر سکا، وہ آپ ہی کر دیں۔ کم از کم آپ کے نام کی تشہیر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے ہونٹوںسے تو نہ ہوتی اور اگر یہ ضروری تھی تو اس کے بعد آپ اپنے مشن کو خفیہ رکھتے، جب مذاکرات کی بساط بچھ جاتی تو لوگ خود ٹوہ لگا کروزیر اعظم ہائوس میں ڈپٹی پرائم منسٹر کے دفتر میںآپ تک پہنچتے اور آپ شرما لجا کر ان سے کہتے،اس میں میر اکوئی کمال نہیں،سب اللہ کا کرم ہے، زیادہ سے زیادہ آپ اپنی حکومتی مجبوری کی بنا پر وزیر اعظم کی تعریف بھی درمیان میں بیان کر سکتے تھے، مجھے معلوم ہے چودھری نثار کا ذکر تو آپ نے کرنانہیں تھا مگر آپ تو میرے بھی استاد نکلے ، ہر لمحہ آپ کی تصویر بیسیوں ٹی وی چینلز پر گھوم رہی ہوتی ہے، ابھی تک آپ طالبان کے پینسٹھ میں سے کسی ایک گروپ کے ساتھ رابطہ نہیں کر سکے،تواب یہ سارے طعنے میں آپ کو لوٹائے دیتا ہوں۔
سرکاری رابطہ کار کا رنگ فق ہوتا دیکھ کر مولا نانے سورہ الفاتحہ کا دم کر کے ان کے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے۔اور ان کا دل رکھنے کے لئے کہا کہ آپ کو اپنے لکھے ہوئے پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہئے، میں آپ کی سرکاری مجبوریوں کو سمجھتا ہوں، ویسے بھی علمائے دین کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک ہوتا رہا، میرے لئے آپ کا رویہ غیر متوقع نہیں مگر آپ اپنے قدموںپر کھڑے ہوں ، جہاں ضروت ہو گی، میں آپ کو سہارا دینے کے لئے موجود ہوں۔
یہ کہہ کر مولا نا نے اپنا بستہ کھولا، اس میں سے ایک فوٹو کاپی نکالی، یہ بھی سرکاری رابطہ کار کی کوئی تحریر تھی جو 23 فروری کو شائع ہوئی، اس سے ابھی تک انہوںنے لاتعلقی کاا ظہار بھی نہیں کیا۔
مولانا نے کہا کہ جناب! آپ نے تو سوال اٹھایا ہے کہ ریاست ا سقدر بے بس کیوں ہو گئی ہے کہ بچوں کو پولیو کے قطرے تک نہیں پلا سکتی،اور انسانی جانیں بازار کی سب سے بے مایہ جنس بن کے رہ گئی ہیں،موج خوں سر سے گزر چکی اور بازوئے قاتل ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
مولانا نے سوال کیا کہ جو فیصلہ ناگزیر ہو چکا تھا، وہ چشم زدن میں بدل کیوں گیا۔آپ مذاکرات کرنا چاہ رہے ہیں یا ناگزیر فیصلہ مسلط کرنے کے خواہاں ہیں۔
اب یہ اندازہ قارئین خود لگائیں کہ سرکاری رابطہ کار کے پاس اس سوال کا جواب ہے یا نہیں۔