محسنین ِ صحافت

جو انسانوں کے احسان کا شکرگزار نہ ہو وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احسان کا بھی کیا شکرگزار ہوگا کہ کسی کو محسن اور کسی کو احسان مند بنانا مشیت ایزدی ہی ہے۔ لاہور پریس کلب کے عہدیداروں کی تقریب حلف برداری میں صدر پریس کلب ارشد انصاری نے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو ’’محسن صحافت‘‘ کا خطاب دیا ہے۔ انہوں نے پریس کلب کے ارکان کے گروپ انشورنس کا 65لاکھ روپے پریمیم حکومت پنجاب کی جانب سے ادا کرنے کا اعلان کیا۔ قبل ازیں جب سرمد بشیر صدر تھے تو وزیرعلیٰ نے صحافی کالونی کے الاٹیوں کے واجبات میں فی کس ایک لاکھ روپے کی رعایت دیدی تھی۔ پریس کلب کی گرانٹ میں بھی اضافہ کیا تھا۔ صحافیوں کیساتھ حسن سلوک کے حوالے سے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ’’محسن صحافت اول‘‘ غلام حیدر وائیں مرحوم تھے جنہوں نے لاہور کے صحافیوں کو ایشیا کا خوبصورت پریس کلب دیا۔ جناب عطاء الحق قاسمی نے بجا طورپر تجویز کیا ہے کہ کلب کو وائیں مرحوم سے موسوم کیا جانا چاہئے تھا۔ یقینا وہ اس کے مستحق ہیں۔ اس کی بجائے پریس کلب کے لان کو میر رفیق لان‘ کانفرنس ہال کو نثار عثمانی ہال اور نوتعمیر ہال کو فیض احمد فیض سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ تینوں ایک خاص فکری و نظری رجحان کے حامل ہیں اور بہرحال غیرمتنازعہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ غلام حیدر وائیں مرحوم نے پریس کلب کی تعمیر بھی خود کرائی اور جگہ کا انتخاب بھی خود کیا۔ تب ناصر نقوی صدر تھے۔ لکھنے والے کو مجبور نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن اخلاق کا تقاضا تھا کہ عطاء الحق قاسمی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور صحافیوں کو چھت فراہم کرنے پر چودھری پرویزالٰہی کا ضمناً ہی تذکرہ کر دیتے۔ اس اعتبار سے چودھری پرویزالٰہی ’’محسن صحافت ثانی‘‘ ہیں۔ انہوں نے نہ صرف لاہور کے بارہ سو صحافیوں بلکہ اسلام آباد‘ ملتان‘ گجرات اور کئی دیگر شہروں میں بھی صحافیوں کو اپنی چھتیں فراہم کیں۔ چودھری پرویزالٰہی نے اس حد تک صحافیوں کے ساتھ خیرسگالی کا مظاہرہ کیا کہ صحافی کالونی میں کوئی پلاٹ پندرہ سال تک فروخت پر پابندی عائد کر دی تاکہ صحافی فروخت کرنے کی بجائے گھر بنائیں۔ آج صحافتی حلقوں میں یہ بات زد زبان ہے کہ چودھری پرویزالٰہی ہوتے تو نہ صرف ایف بلاک بلکہ نئے ممبران جن میں سے زیادہ تر کا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے کو کب کے پلاٹ مل چکے ہوتے۔ صحافیوں کیلئے اس حسن سلوک کی بنا پر وہ مستحق ہیں کہ صحافی کالونی میں بننے والے پارک کا نام چودھری پرویزالٰہی پارک رکھ دیا جائے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے بھی بہرحال لاہور کے صحافیوں کی خیرخواہی میں حصہ ڈالاہے اس لئے ’’محسن صحافت ثالث‘‘ کا اعزاز رکھتے ہیں۔ تاہم اگر وہ ایف بلاک کا مسئلہ حل کر دیں اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے نئے ممبران کو بھی ’’جی بلاک‘‘ کی شکل میں اپنی چھتیں مہیا کر دیں تو ان کیلئے یقینا ’’محسن صحافت اول‘‘ ہونگے۔ یہ بے گھر صحافی پچھلے ایک عشرے سے اس امید میں جی رہے ہیں کہ صحافی کالونی کے اپنے ساتھیوں کی طرح انہیں بھی اپنی چھتیں میسر آجائیں گی۔ عطاء الحق قاسمی نے درست کہا کہ وزیراعلیٰ شہباز اپنی بے پناہ مصروفیت کی بنا پر ذاتی توجہ نہیں دے سکتے تو یہ کام چھوٹے’’جن‘‘ سے کرا لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتنا بڑا کام نہیں ہے کہ اس کیلئے ’’جناتی قوتیں‘‘ بروئے کار آئیں بلکہ اس کیلئے تو چھوٹے چھوٹے ’’بھوت‘‘ بھی کافی ہیں بشرطیکہ انہیں نتیجہ خیز ذمہ داری کیلئے اختیارات بھی تفویض کئے جائیں اور ان کی نگرانی بھی کی جائے۔ اپنے ان بھائیوں کیلئے ایک عاجزانہ تجویز ہے کہ دونوں مجوزہ بلاکوں میں ہر دس مرلے میں سے تین مرلے جناب ریاض ملک کو اس بنیاد پر دیدیئے جائیں کہ وہ اس کے عوض باقی سات مرلے پر سنگل یا ڈبل گھر بنادیں۔ اس طرح مالی کم مائیگی کے باعث کسی صحافی کو پلاٹ بیچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ آجکل تو تین مرلے میں شاندا رمکان بن رہے ہیں‘ سات مرلہ تو کہیں زیادہ ہے۔ جہاں تک ایف بلاک کا تعلق ہے اس کیلئے پریس کلب کے عہدداروں کے مطابق اراضی بھی مختص ہو گئی ہے اور 30 کروڑ کی رقم بھی جاری ہو چکی ہے۔ پھر اس معاملے میں تاخیر تو ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا کیونکہ اس معاملے میں تاخیر وزیراعلیٰ شہبازشریف کیلئے بدظنی کی فضا پیدا کرے گی۔ جناب عطاء الحق قاسمی کا میاں شہبازشریف سے جتنا تعلق ہے مگر اس سے آدھا بلکہ پون تعلق بھی میراہوتا تو میں ایف بلاک کا مسئلہ حل کرا کر اٹھتا۔ اس سلسلے میں نتیجہ خیز کردار کے ذریعے وہ بھی ’’محسن صحافت چہارم‘‘ کا اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔ میاں شہبازشریف کو باور کر لینا چاہئے کہ لاہور کے صحافی احسان فراموش نہیں‘ اگر ان کے دلوں میں چودھری پرویزالٰہی کیلئے ممنونیت کے جذبات آج بھی موجزن ہیں تو ان کیلئے بھی کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن