چینی صدر کا یوم پاکستان کے موقع پر دورہ پاکستان کے اعلان کے بعد
امریکی صدر بارک اوباما نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا کے استحکام اور افغانستان میں پائیدار امن کیلئے وہ پاکستان کے ساتھ ملکر کام کرینگے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قومی سلامتی کے بارے میں جاری نئی سٹریٹجی پر مشتمل 29 صفحات کی دستاویز میں کیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہارف نے پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ واشنگٹن میں دعائیہ ناشتہ کی تقریب سے خطاب کی مزید تفصیل کے مطابق صدر بارک اوباما نے بھارت میں مذہبی عدم برداشت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مذہبی عدم برداشت اور منافرت گاندھی کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ اوباما نے کہا کہ کسی بھی قسم کے حالات کو معصوموں، کمزوروں یا اقلیتوں کی جان لینے کےلئے جواز نہیں بنایا جاسکتا۔
امریکی صدر باراک اوباما گزشتہ ماہ کے آخر پر بھارت کے دورے پر آئے‘ بھارت پہنچنے سے قبل ہی انہوں نے یکطرفہ طور پر پاکستان کیخلاف بیان بازی کا محاذ کھڑا کردیا۔ وہ پاکستان پر بھارتی زبان میں الزام لگاتے نظر آئے۔ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے اوباما کے دورے سے قبل کہا گیا کہ امریکہ اور بھارت میں ایٹمی تجارتی معاہدے ہونگے‘ ساتھ ہی پاکستان کی اہمیت کا بھی اعتراف کیا گیا مگر 23 جنوری کو بھارت پہنچنے سے دو روز قبل انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہرگز قبول نہیں۔ پناہ گاہیں ختم نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو نتائج کی بھی دھمکی دی۔ ممبئی حملے کے ملزموں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ اوباما نے جنوبی ایشیاءکے دورے کے موقع پر پاکستان کو یکسر نظرانداز کرکے بھی بھارت کے ساتھ تعلقات میں گہرائی کا تاثر دیا تھا۔ وائٹ ہاﺅس بھی انکے دہلی پہنچنے سے ایک روز قبل اسی ڈگر پر دکھائی دیا‘ گویا بھارت‘ اوباما اور وائٹ ہاﺅس ان دنوں پاکستان کی مخالفت میں ایک پیچ پر تھے یا یکساں سوچ کا اظہار کررہے تھے۔
وائٹ ہاﺅس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں متعدد دہشت گرد گروپ سرگرم ہیں۔ طویل عرصے سے امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم ایسے دہشت گرد گروپوں کے بارے میں تشویش لاحق ہے جو کسی قسم کی سزا سے مبرا ہو کر امریکیوں کیخلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ امریکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھارت کے ساتھ قریبی تعاون جاری رکھے گا۔ اوباما اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات میں مبینہ طور پر پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کرینگے۔
اوباما بھارت پہنچے تو انہوں نے مودی اور بھارت پر ریشہ خطمی ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ وہی مودی ہیں جن کو اوباما دور میں بھی امریکہ داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ امریکہ نے مودی کو گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوث قرار دے کر ان کا امریکہ میں داخلہ ممنوع قرار دیا تھا۔ دورے کے پہلے روز ہی سے اوباما بھارت پر نوازشات اور عنایات کی برسات کرتے نظر آئے۔ سول نیوکلیئر معاہدے پر اختلافات ختم کرنے کا سمجھوتہ طے پایا۔ اوباما نے بھارت کے ساتھ ایٹمی تجارت شروع کرنے اور دفاعی تعلقات نئی بلندیوں پر لے جانے کا اعلان کیا۔ بھارت پہنچنے سے قبل بھی اوباما نے کہا تھا کہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے میں بھارت کی حمایت کرینگے۔ دہلی میں مزید جوش و خروش سے بھارت کو اس حوالے سے یقین دہانی کرائی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ جس میں افغانستان میدان جنگ تھا‘ پاکستان کو فرنٹ لائن اتحادی قرار دینے والے اوباما دہلی میں کھڑے ہو کر کہہ رہے تھے کہ امریکہ اور بھارت افغانستان میں قابل اعتماد پارٹنر ہیں۔ بھارت کے ساتھ مل کر سی ون تھرٹی کے پرزے اور ڈرون بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا۔اوباما کے دورے کے بعد پتہ چلا کہ وہ بھارت کو دفاعی مقاصد کیلئے استعمال ہونیوالے پانچ بحری بیڑوں کی تیاری میں بھی تعاون کا یقین دلا گئے ہیں۔ اوباما نے بھارت کیلئے 4 ارب کی سرمایہ کاری اور قرضوں کا بھی اعلان کیا۔
اوباما کے بہت سے اقدامات بھارت سے قربتیں ظاہر کرتے تھے جبکہ ایسے اقدامات‘ معاہدے اور اعلانات بھی تھے‘ جو پاکستان کیلئے دل آزاری کا باعث بنے۔ ان پر پاکستان کی طرف سے سرسری سا ردعمل سامنے آتا رہا جبکہ ضرورت ٹھوس ردعمل کی تھی۔ اوباما ابھی بھارت ہی میں تھے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف چین پہنچ گئے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے عالمی تعاون کی بات کی جس پر چین کا ردعمل انتہائی مثبت تھا۔ چینی قیادت نے یقین دلایا کہ کوئی ملک پاکستان کا متبادل ثابت نہیں ہو سکتا اور مستقبل میں پاکستان اور چین کو ہمسفر قرار دیا جس میں دونوں کی منزل ایک ہے۔ بھارت اور امریکہ نے عین اس وقت جب اوباما بھارت میں تھے‘ پاکستانی آرمی چیف کے دورہ چین کا کوئی خاص نوٹس لیا نہ ردعمل ظاہر کیا۔ بہرحال پاکستان کی طرف سے یہ اچھی سفارت کاری کی ایک کوشش ضرور تھی لیکن موجودہ حالات میں آرمی چیف کے دورہ چین کا اوباما کے بھارتی دورے سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اوباما بھارت سے اسکی تعریفوں کا راگ الاپتے‘ بھارت کے ساتھ مل کر نئی منزلوں کا تعین کرتے اور پاکستان نہ آنے کی زحمت کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ بھارت خوش تھا کہ پاکستان کو اس نے عالمی سطح پر تنہاءکر دیا امریکہ اور پاکستان کے مابین فاصلوں میں مزید اضافہ پیدا کر دیا ہے۔ ایسے میں حکومت پاکستان کی طرف سے بہترین سفارتکاری نظر آئی۔ پاکستان میں کئی سال سے یوم پاکستان پر قومی وقار کی علامت فوجی پریڈ کا انعقاد معطل تھا‘ فوج نے رواں سال 23 مارچ کو اسی جوش و جذبے سے فوجی پریڈ کے انعقاد کا اعلان کیا جو اسی پریڈ کا طرہ¿ امتیاز رہا ہے۔ اس سے یقیناً دہشت گردوں‘ انکے سہولت کاروں اور حامیوں کیلئے انکے خاتمے کے عزم کا اظہار ہے۔ حکومت نے اس اہم قومی دن کے موقع پر چینی صدر کو قومی وقار کی علامت پریڈ میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا ہے۔ انہوں نے آمد کنفرم کر دی ہے۔ اوباما بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ اس کا پاکستان کی طرف سے بھرپور اور بہترین جواب چینی صدر کو یوم پاکستان پر مدعو کرکے دیا گیا ہے۔ آج اوباما اور وائٹ ہاﺅس کے لہجے میں تبدیلی پاکستان کی بہترین سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔
چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پہلے بھی خوشگوار اور مضبوط ہیں جو مزید بہتر ہونگے۔ گو امریکہ افغانستان سے انخلاءکر چکا ہے مگر اس کا عمل دخل وہاں بدستور موجود ہے۔ ہزاروں امریکی فوجی اب بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ افغانستان میں آخری امریکی فوجی کی موجودگی تک اس کیلئے پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ چین اور پاکستان کی تعلقات میں نئی جہتیں سامنے آنے پر امریکہ کو اپنا پینترا بدلنا پڑا اسی لئے اوباما اور وائٹ ہاﺅس پاکستان کی اہمیت کا اعتراف اور اظہار کررہے ہیں۔ اوباما نے بھارت کے دورے کے آخری مرحلے میں مذہبی برداشت‘ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی بات کی تھی‘ چینی صدر کے دورہ پاکستان طے ہونے کے بعد اوباما نے اس حوالے سے زیادہ سخت رویہ اختیار کیا۔ ناشتے کی تقریب میں اوباما نے بھارت میں مذہبی عدم برداشت اور منافرت کی مذمت کی۔ اسے گاندھی کی تعلیمات کے منافی قرار دیا۔ گاندھی نے اقلیتوں کو ایک ہی گلدستے کے پھول قرار دیا تھا‘ آج بھارت میں اقلیتوں کا حشر سب کے سامنے ہے۔
حکومت نے گو دیر سے ہی سہی‘ اوباما کے پاکستان کو نظرانداز کرکے بھارت کے دورے اور وہاں ہونیوالے معاہدوں کا بھرپور جواب دیا ہے جس پر اوباما کا بھارتی حمایت کیلئے جذبہ سرد پڑا اور انہیں پاکستان کی حمایت پر مجبور ہونا پڑا۔