”قومیائے“ ہوئے قومی المیے!

Feb 08, 2016

نعیم مسعود

ہم جس چیز کو بھی ” قومیانے“ جاتے ہیں وہی چیز قومی المیہ کیوں بن جاتی ہے؟ ہاکی کبھی ہمارا قومی کھیل تھا آخر قومی المیہ بن گیا۔ ایسے ہی جیسے پی آئی اے ہماری قومی ائر لائن ہے اور یہ بھی قومی المیہ بن گئی۔ عمران خان بذریعہ کرکٹ ہمارے قومی ہیرو تھے آخر انہیں سیاست کی نظر لگ گئی اور تو اور اس قوم کے قومی شاعر مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کی شاعری میں سے خودی‘ انقلاب‘ مومن‘ شاہین‘ کلیم اور تک کو ہم نے قوم سے غائب پایا۔ قومیائے گئے وہ بینک اور ادارے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پالیسی کی نذر ہوئے ان کا کیا حشرنشر ہوا تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ حتیٰ کہ جب 5 فروری کی شکل میں قاضی حسین احمد کی کاوشوں سے یوم اظہار یکجہتی کشمیر کو منانا شروع کیا گیا تو یہ قومی نظریہ بننے کے بجائے قومی تعطیل بن گئی اور مسئلہ کشمیر کسی سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ آہ! چیزوں کی قومیانے کے حوالے سے منیر نیازی کے ایک شعر نے قلب وذہین پر آ دستک دی ہے ع
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اُسی کو مار دیتا ہوں
کہتے ہیں کسی زمانے میں‘ اکثریت کے مطابق بے نظیر بھٹو کے ایک دور میں بذریعہ جنرل بابر طالبان کو قومیانے کا فر یضہ سر انجام دیا گیا‘ ان طالبان نے نا صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کو ختم کر دیا بلکہ پی پی پی کو بھی پیوند خاک کر دیا اور آج دہشت گردی ہمارا قومی مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ یہی کام ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کیا تھا کہ انہوں نے محترم المقام اعلیٰ حضرت جنرل ضیاءالحق کی معصومیت کو قومیانے کا ایسا فعل سر انجام دیا آخر اُسی ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کو تخت سے تختہ دار تک پہنچا دیا۔ میاں نواز شریف تو حسب معمول و حسب روایت خوش قسمت نکلے کے تختہ دار سے تخت کی جانب واپس آگئے کیونکہ اُن کے قومیائے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کسر تو کوئی نہیں چھوڑی تھی۔ گویا دو پاپولر لیڈران نے اپنے اپنے وقتوں میں جو جرنیل” قومیائے“ انہوں نے مارشل لاءلگایا یا جمہوریت کو گود لے لیا۔ زیادہ دور نہیں جاتے ماضی قریب میں بے نظیر بھٹو نے سپریم کورٹ کے سامنے کھڑے ہو کر ایک چیف جسٹس کے لئے نعرہ لگایا تھا کہ ”میرا چیف جسٹس“ اسی نعرے سے وفا کرتے ہوئے بے نظیر بھٹو کے بھائی اعتزاز احسن نے اُس ہیرو چیف جسٹس کو قومیانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور بلآخر اُسی ہیرو نے طالبان اور زرداری و گیلانی کی ناقص سیاستکاریوں کی سنگت میں پی پی پی کو ختم کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ میاں نواز شریف پھر سے خوش قسمت ٹھہرے کہ‘ انہیں وہ چیف جسٹس جمہوریت کے جہیز میں نہیں ملا ورنہ (1) میاں نواز شریف تمام نوجوانوں کو قرضے اور نوکریاں دینے کے وعدے کی پاداش میں(2) لوڈ شیڈنگ کا اب تک خاتمہ نہ کر پانے کے تناظر میں (3) چھوٹے بھائی شہباز شریف کے 6 ماہ یا کم وبیش 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرنے کی وعدہ خلافی (4) سابق صدر کو گھسیٹنے کے سیاسی نعرے کی بدولت (5) سانحہ ماڈل ٹاو¿ن میں ڈیڑھ درجن افراد کے لقمہ اجل بننے کے سبب (6) نہیں تو پی آئی اے کے مسئلہ کی خاطر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ”حشر“ سے گزرنا پڑتا۔ کسی دل جلے نے کیا خوب لکھا کہ:
ہم جسے اپنا چاند کہتے تھے
اُس نے تارے دکھا دیئے ہم کو
میں چاہوں بھی تو تیسرے چوتھے کالم میں بیک وقت صحت‘ تعلیم اور فراہمی انصاف کا رونا روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حلقہ یاراں نے صحت و تعلیم وانصاف کے بدقسمت ٹرائیکا کو میری چھیڑ ہی بنا کر رکھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سابق وزیراعظم مرحوم محمد خان جونیجو نے صحت کے حوالے سے ایک انقلابی اقدام روشناس کرایا جسے زمانے اور ریاست کے ستم نے بعدازاں قبرستان بنا دیا۔ یعنی بنیادی یونٹ برائے صحت (BHL) بیسک ہیلتھ یونٹس جیسا انقلابی کام میں نے نہیں دیکھا لیکن آمروں اور جمہوریت پسندوں نے اس کی نگہداشت ہی نہیں کی تھی۔ ڈاکٹروں اور سٹاف کے گھروں سمیت یہ بنیادی ہسپتال اور ان کی عمارتیں گاو¿ں، گاو¿ں اصطبل‘ مویشی ہاو¿سز اور جوئے کے اڈے بن گئے۔ اب میرا نہیں خیال کوئی اس قدر بنیادی کام کرے گا۔ رہی انصاف کی بات تو اس میں ہم سول جج سے 8 تا 10 فٹ دور بیٹھے ریڈر یا اہلمد کو بھتہ لے کر تاریخ دینے سے نہیں روک سکے تو بھلا یہ ایکس وائی زیڈ عدالتیں انسداد دہشت گردی کی ہوں یا آرمی کو رٹس‘ ہم ان سے کیا اُمیدیں وابستہ کریں؟ کہاں تک سنائیں انصاف کے مرثیے اور کہاں تک سنے کوئی فراہمی صحت کے نوحے ع
ساقی نے جھوٹ بولا ہے فصل بہار کا
گلشن میں صرف آگ کی انگڑائیاں ملیں
گھر گھر میں سسکتے مریضوں کےلئے پنجاب وسندھ اور کے پی کے و بلو چستان کے کس کس ہسپتال میں ہیپاٹائٹس کےلئے Qualitative اور Quantitative ٹیسٹوں کی سہولتیں موجود ہیں۔ 18ویں ترمیم کے تحت مرکز نے تو صحت اور تعلیم سے جان چھڑ والی، چلیں مرکز کے پاس جو مختصر سے ہسپتال بچے ہیں یعنی پمز اور پولی کلینک وغیرہ میں کہاں کہاں سہولتیں موجود ہیں۔ اگر 18 ویں ترمیم کے تحت ہائر ایجوکیشن اور بنیادی تعلیمات صوبوں کو منتقل ہو چکی ہیں تو پاکستان ہائر ایجوکیشن کمشن کس آئین اور قانون کے تحت کام کر رہا ہے؟ اگر ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان درست ہے اور کسی آئین کی خلاف ورزی نہیں تو پھر پنجاب اور سندھ کے ہائر ایجوکیشن کمشن آئین کی کس شق کا حصہ ہیں؟ پھر بلوچستان اور کے پی کے والے اپنے کمشن کیوں نہیں بنا سکے جبکہ کے پی کے کے تقریباً ہر ضلع میں ایک یا ایک سے زائد یونیورسٹیاں ہیں؟ اگر کے پی کے والے گڈ گورنس کے دعویدار ہیں تو وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک اور وزیر تعلیم مشتاق غنی 18 ویں ترمیم کے ماننے سے قاصر ہیں یا سمجھنے سے ؟ بلوچستان کے عبدالمالک بلوچ تو گئے لیکن وزیراعلیٰ نواب ثناءاللہ زہری اور وزیر شمع پرویز مگسی کے پاس 18 ویں ترمیم کے تحت صوبوں کے ملنے والی تعلیمی ذمہ داری کا کیا جواب ہے یا ذمہ داری نبھانے کے قابل نہیں؟ آہ! مسلم لیگ ن کا اپنے ممبران اسمبلی اور وزراءکے بجائے بیورو کریسی کو قومیانے کے سبب پنجاب میں بالخصوص اور مرکز میں بالعموم بیورو کریٹس بھی قومی المیہ بن چکے ہیں!
پورا کمشن ایک طرف‘ اکیلا چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد ہائر ایجوکیشن کمشن 7 تا 10 لاکھ ماہانہ تنخواہ اور الا¶نس میں پڑتا ہے پھر پنجاب ہائر ایجوکیشن کمشن کا چیئرمین ڈاکٹر نظام الدین بھی 7 یا 10 لاکھ ماہانہ میں پڑتا ہے۔ چلیں سندھ کے ڈاکٹر عاصم حسین تو مکافات عمل کا شکار ہیں۔ وفاقی وزراءاحسن اقبال وبلیغ الرحمن اور صوبائی وزیر تعلیم پنجاب رانا مشہود میں سے کوئی ایک ایچ ای سی پنجاب‘ ایچ ای سی پاکستان اور محکمہ تعلیم پنجاب و مرکز میں ایک فیصد باہمی ربط ثابت کر کے دکھا دیں! جب سے میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف اور کچھ چہتے وزراءنے تعلیم کو قومی معاملہ وقومی ضرورت بناتے ہوئے” قومیانے“ کی کوشش کی‘ روایت نے یہاں بھی اپنے آپ کو دہرایا ہے‘ آخر کار شرفاءنے قومی تعلیمی ضرورت کو بھی قومی المیہ بنا کر دم لیا۔ اہل علم اور دیانتدار تجزیہ کار حیران ہیں کہ پنجاب میں ایک پرائیویٹ تعلیمی مافیا سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے چناو¿ میں کم اور حیرت انگیز حکمت عملی میں زیادہ مصروف ہے۔ چندہ ماہ پہلے جو امیدواران کسی شمار میں نہیں تھے یا انہوں نے ان کے شماریاتی کھاتے کو گھاس نہ ڈالی اب وہ سرفہرست ہیں۔ گویا پہلے بھی مضطرب تھے اور اب بھی کنفیوژ ۔ کیا بہتر نہ ہوتا صوبائی چیف ایگز یکٹو ” صوابدیدی“ اختیارات کو بروئے کار لے آتے؟؟؟ ملک کو کرپشن اورالمیہ فری بنانا ہے تو ذمہ داری اور باہمی ربط کو بروئے کار لائیں!
آخر قومیائے گئے معاملات و ضروریات کو قومی المیہ میں بدلنے والے کسی احتساب یا حساب کتاب میں کب آئیں گے؟ جنرل دہشتگردی کے ساتھ ساتھ تعلیمی دہشت گردی‘ نا انصافی دہشت گردی اور میڈیکل دہشتگردی کے انسداد کے لئے ضرب عضب اور ضرب عزم کی بھی ضرورت ہے!!!

مزیدخبریں