عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے معاملات کے بارے میں میرا رویہ بالکل تبدیل ہوگیا ہے۔ ابھی تک مگر وہ مقام نہیں آیا جہاں دُنیا سے اُکتاکر آپ گوشہ تنہائی میں بیٹھ جاتے ہیں۔ بچے اور نوجوان آپ کی موجودگی میں خوش گپیوں اور بلند آہنگ قہقہے لگانے سے خوف کھاتے ہیں۔ زندگی کے پُرمسرت لمحات سے بھرپور انداز میں لطف اٹھاتے لوگ بلکہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ مجھے ان کی رجائیت سے جلن محسوس نہیں ہوتی۔ گج وج کر زندہ رہنے والی توانائی پر رشک آتا ہے۔ ان دنوں دوبئی میں ایک تماشہ لگا ہوا ہے۔ نام اس تماشے کا ہے- پاکستان سپرلیگ- لاہور،کراچی،اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سے منسوب کرکٹ ٹیمیں ہیں۔ مقابلہ ان کے درمیان T-20والی کرکٹ کا ہورہا ہے۔ ٹیلی وژن سکرینوں کو اس مقابلے نے بہت رونق بخشی ہوئی ہے۔ ٹی وی پر رونق کے مقابلے میں کہیں زیادہ جاندار مگر وہ فقرے بازی ہے جو مختلف ٹیموں کے شیدائی انٹرنیٹ کے ٹویٹر والی Appsکے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جمعرات کی رات میں نے اپنا ٹویٹر اکائونٹ کھولا تو اس فقرے بازی نے ’’یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘ والا سوال میرے ذہن میں اٹھاڈالا۔ اس سوال نے چند دوسرے سوالات اٹھانے پر بھی مجبور کردیا۔ انہیں بہت دیانت داری اور بے ساختگی کے ساتھ اپنے اکائونٹ پر پوسٹ کردیا تو جو سوالات اٹھائے تھے ان کے جوابات تو نہ ملے مگر طعنوں کی ایک بوچھاڑ سہنے کو ضرور ملی۔
مجھے رنگ میں بھنگ ڈالنے والا مردم بیزار بڈھاقرار دے دیا گیا تو میں بالکل نہیں چڑا۔ افسوس مگر اس وقت ہوا جب PSLکے چند بہت ہی جذباتی پرستاروں نے مجھے ’’پاکستان دشمنوں‘‘ کے اس گروہ میں پھینک دیا جو ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان دُنیا کے سامنے دہشت گردی کی پھیلائی تباہی اور اداسی کے بجائے کھیل تماشوں سے لطف اندوز ہونے والے ایک زندہ اور صحت مند معاشرے کی صورت متعارف ہو۔ اپنی ذات پر لگائے اس بے بنیاد مگر انتہائی سنگین الزام نے بالآخر مجبور کردیا کہ اس کالم کے ذریعے PSLسے جڑی چند بنیادی باتوں کا ذکر ہوجائے۔
PSLکا تصور ہم نے اپنے ’’ازلی دشمن‘‘ سے مستعار لیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں کے نام سے چند بین الاقوامی شہرت کے حامل کھلاڑی ’’خریدے‘‘ گئے۔ ان کے درمیان کاروباری رقابت کی تمام تر شدت کو استعمال کرتے ہوئے مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ کھیل کے میدانوں اور ٹی وی سکرینوں پر رونق لگ گئی۔ عوام کی ایک بے پناہ تعداد اپنے روزمرہّ کی مصیبتوں اور تلخیوں کو بھلاکر ان مقابلوں سے لطف اندوز ہوئی۔ اشتہاری کمپنیوں اور کھلاڑیوں نے بے پناہ دولت کمائی۔ بھارت کا شمار ان ممالک میں ہونے لگا جہاں لوگوں کے پاس رزق اور فالتو وقت کی فراوانی ہے اور وہ اس وقت کو کھیل تماشوں کے ذریعے صحت مندانہ انداز میں خرچ کرنے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔ اس پورے دھندے کو انگریزی میں Feel-Goodماحول پیدا کرنا کہا جاتا ہے۔
Feel-Goodماحول پاکستان کا بھی حق ہے۔ میں یہ بات البتہ ہرگز نہیں سمجھ پایا کہ لاہور، کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور سے منسوب ٹیموں کے مابین متحدہ عرب امارات کے ایک شہر-دوبئی- میں T-20مقابلے کرواکر پاکستان کے بارے میں Feel-Goodفیکٹر کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے۔دوبئی میں ہوئے ہر میچ کا ایک ایک لمحہ بلکہ مجھ ایسے بدنصیب کو مسلسل یاد دلاتا رہتا ہے کہ کرکٹ کے حوالے سے Starبنے غیر ملکی کھلاڑی ابھی تک میرے ملک کے کسی شہر میں آکر کھیلنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوبئی میں ہوئی PSLکسی Feel-Goodتصور کو پیدا کرنے کے بجائے میرے ملک میں پھیلے احساس عدم تحفظ کا اثبات ہے اور میں اس کے بارے میں کھوکھلی حب الوطنی کے نام پر شاداں محسوس ہونے کا سوانگ رچانے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔
پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لئے یہ خیال بہت ہی شاندار ہے کہ لاہور، کراچی،کوئٹہ اور پشاور جیسے شہروں کے نوجوان اور امکانات سے بھرپور کھلاڑیوں کو ڈھونڈکر ایک ٹیم کی صورت دے کر مقابلے کے میدان میں پھینکا جائے۔ امکانات سے بھرپور کھلاڑیوں کی تلاش اور ان کی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ اہم بات لاہور،کراچی،کوئٹہ اور پشاور کی گرائونڈز کو آباد کرنا بھی ہے۔ جہاں تماشائی آئیں۔ ٹکٹیں بکیں۔ کھابے فروخت ہوں۔ شہروں میں رونق نظر آئے۔
PSLکے نام پر رونق مگر دوبئی کا مقدر ہوئی ہے یا ٹی وی کی ان سکرینوں کا جن کی زندگی کا انحصار اشتہاری کمپنیوں سے ملی رقوم پر ہے۔ لاہور یا اسلام آباد میں اپنے گھروں میں بند ہوکر ٹی وی سکرین پر میچ دیکھتے ہوئے ٹویٹر کے ذریعے اپنی پسند کی ٹیم کے لئے واہ واہ اور فریقِ مخالف کے لئے تھوتھو تو تنہائی کے مارے کسی دیوانے کے ذہن میں برپا معرکوں کی نشان دہی کرتی ہے۔ Feel Good Factorکی ہرگز نہیں۔
PSLکے نام پر دوبئی میں رچایا تماشہ میری نظر میں ایک سفاک فریب اس لئے بھی ہے کہ اس کی وجہ سے میں اپنے حکمرانوں سے ہرگز یہ سوال پوچھنے کی فرصت نہیں پارہا کہ آپریشن ضربِ عضب کا ایک سال گزرنے کے بعد بھی کسی نام نہاد ’’ایک ہی پیج‘‘ پر موجود میرے عسکری اور منتخب حاکم وہ ماحول کیوں نہیں پیدا کر پائے جہاں سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں نہیں بلکہ 50سے بھی کم غیر ملکی کرکٹر پاکستان کے کسی میدان میں کھیلنے کو تیار نہیں ہو رہے۔
فرض کیجئے کہ لاہور یا کراچی سے منسوب دو ٹیموں میں مقابلہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ہورہا ہو تو زیادہ سے زیادہ کتنے غیر ملکی کھلاڑیوں کے لئے سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کی تعداد کسی بھی صورت دس سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ Feel Good Factorاسی صورت بنتا اگر Whatever it Takesوالا رویہ اپناتے ہوئے ان دس کھلاڑیوں کو لاہور لایا جاتا اور پاکستان کے دو بڑے شہروں سے منسوب ان کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلہ میرے ملک ہی کے ایک شہر میں ہوتا۔ اس بنیادی بات کے علاوہ جو بھی کہانیاں اور دلائل ہیں وہ بودے ہیں، بہانے ہیں۔ حکمرانوں کو ہمارے تلخ سوالوں سے بچانے کی کوشش ہیںاور میں ’’حب الوطنی‘‘ کے نام پر جواز گھڑتے ہوئے اپنے حاکموں کو تلخ سوالات سے بچانے والے اس عمل کا سہولت کار بننے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے خیال آیا ہے کہ PSLکے بارے میں چند سنکی سوالات اٹھا کر بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے بیٹھا ہوں۔ پنگا مگر اب لے ہی لیا ہے تو چلتے چلتے یہ استدعا بھی ضرور کروں گا کہ آپ اس نام پر ضرور غور کرلیں جو ضرورت سے زیادہ عقل مند کسی فرد نے کوئٹہ سے منسوب کرکٹ ٹیم کو دیا ہے۔
آپ کو یاد نہ آرہا ہو تو بتائے دیتا ہوں کہ کوئٹہ سے منسوب ٹیم کا نام رکھا گیا ہے Gladiators۔ یہ نام قدیم روم کے ان غلاموں کا ہوتا تھا جنہیں شیروں کے پنجرے میں ان کامقابلہ کرنے کے لئے پھینک دیا جاتا تھا۔ انگریزی کی لغت میں Gladiatorکا مطلب دیکھیں تو یہ آپ کو یہ بھی بتائے گی کہ شیروں کے پنجرے میں پھینکے غلام وہ شخص ہوا کرتے تھے جو عوام کی تفریح کے لئے اپنے مرنے تک لڑا کرتے تھے۔ (Fight To the Death for Public Entertainment) یہ اس لفظ کی انگریزی لغت میں دی گئی تشریح ہے میری ایجاد نہیں۔
کوئٹہ سے منسوب ٹیم کو Gladiatorsکہہ کر اپنی تفریح کا بندوبست کرنے والوں کو شاید اب تک علم ہو گیا ہوگا کہ بلوچستان کے دارالحکومت میں ہفتے کے روز بھی ایک دھماکہ ہوا ہے۔ دس جانیں اس دھماکے کی نذر ہوئیں مگر اس شہر کے نام پر پاکستان کے لئے Feel Good Factorہم دوبئی میں پیدا کرنے کی کوششوں میں مسلسل مصروف ہیں۔