کراچی (نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن )آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے کہا ہے کہ کراچی کورینجرز کی بیساکھیوں پر کب تک چلایا جاتا رہے گا، سوچنا ہوگا پولیس کو رینجرز کی بیساکھیوں کی ضرورت کیوں پڑی؟ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسریز میں تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ نے کہا تھا یہ نہیں ہونا چاہئے ہم بیساکھیوں پرہی رہیں۔ سرکاری ادارے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ سندھ پولیس میں پہلی بارشفاف طریقے سے بھرتیاں کیں۔ انہوں نے کہا 1861کے قانون کے تحت 21ویں صدی میں کام نہیں ہو سکتا۔80ء کا آخر اور90ء کی دہائی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔پولیس نے تن تنہا نہایت کامیابی سے آپریشن کیا۔ ماضی میں کراچی آپریشن کامیاب بنانے والے اہلکاروں کو چن چن کر شہید کیا گیا۔پولیس افسروں کو قتل کرنے والے ایوانوں میں بیٹھے رہے۔ پولیس والے منہ چھپاتے رہے،کوئی وردی میں جانے کیلئے تیار نہیں تھا، مورال گرگیاتھا،قتل و غارت گری پر پوری سوسائٹی خاموش رہی۔ آئی جی سندھ نے مزید کہا یہی وہ وجوہات تھیں جن کی وجہ سے شہر کو بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا،دیکھنا ہوگا مجرم پکڑ سے کیوں دور رہے؟ انہوں نے کہا کراچی پولیس کا مورال آسمان سے زمین پر آ گیا ہے۔ ہم ایک معاشرے کی حیثیت سے بھی ملک کی خدمت نہیں کر سکے۔ جب تک انگریزوں کے زمانے کا قانون تبدیل نہیں ہو گا تب تک پولیس عوام کی خدمت نہیں کر سکتی۔ آئی جی سندھ نے کہا معزز ایوانوں میں بیٹھے بہت سے ارکان جیلوں سے سزا کاٹ کر آئے ہیں، ایسے بہت سے ارکان ہیں جنہوں نے این آر او سے فائدہ اٹھایا۔ پولیس کے حوالے سے عوام متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہے مگر میں جانتا ہوں پولیس کبھی اپنا قرض رکھتی نہیں بلکہ وقت آتا ہے تو وہ اس قرض کو اتارنا بھی اچھی طرح جانتی ہے۔ انہوں نے کہا اندرون سندھ امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب تھی لیکن ہم نے رینجرز کی مدد کے بغیر ان علاقوں میں بھی امن قائم کیا۔ انہوں نے کہا افسوس کا مقام ہے آج تک پولیس سیاسی دبائو سے آزاد نہیں ہوئی اسی لئے اس کی کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں آیا اور نہ ہی بہتری آ رہی ہے۔