اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے اغوا برائے تاوان اور قتل کے مقدمات میں ناقص تفتیش، نامناسب شہادتوں، پراسیکیوشن کی بے بنیاد کہانی پر 5 ملزموں کو بری کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ بلو چستان کے ضلع جعفر آباد میں قتل کیس کے ملزم عبدالرشید کے مقدمہ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ تفتیشی افسر اگر تفتیش ٹھیک کریں تو اصل ملزم بری نہیں ہو سکتے، تفتیشی کو دیکھنا چاہیے کہ مدعی نے جو الزام لگائے ہیں وہ درست ہیں یا جھوٹے ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے کہا اگر مدعی اور پولیس مل جائیں گے تو پھر تباہی ہی تباہی ہے ہر کوئی اپنی مرضی کے مقدمات بنائے گا۔ عدالت نے بہاولپور کے علاقہ تھانہ کوتوالی میں 11 سال قبل ہونے والے مبینہ قتل کیس کے ملزم شہزاد عرف ساجن خلاف پراسیکیوشن کی ایف آئی آر کی کہانی کو جھوٹی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا یہاں پرایف آئی آر کے اندراج کے بعد سرکار ہی مدعی بن جاتی ہے، پولیس اور مدعی ایک ہو جاتے ہیں ،حالانکہ پولیس کو مدعی کے الزام کی حقیقت کا بھی جائزہ لینا چاہئے لیکن پولیس سارا زور ایف آئی آر میں درج کی گئی کہانی کو سچ ثابت کرنے پر لگا دیتی ہے اور اس کے لئے ثبوت بھی گھڑ لئے جاتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب تک کسی ماہر نفسیات کی رپورٹ نہ ہو ہم پولیس کو کسی بھی شخص کو فاتر العقل قرار دینے کا اختیار نہیں دے سکتے ہیں۔ پشتو اور پنجابی فلموں کی طرح اس ایف آئی آر کا کوئی سر ہے نہ پیر ہے، اگر خواتین نے اپنے زیورات پہچان لئے تھے تو کیا اپنے رشتہ دار کو نہیں پہچان سکتی تھیں؟ لگتا ہے اس کیس میں ایک تیر سے دو شکار کئے گئے ہیں ایک جانب تو بھائی کے سوا لاکھ پونڈ غائب کئے گئے ہیں اور دوسرا تکلیف دینے والے بھانجے سے جان چھڑائی گئی ہے۔ جسٹس آصف سعید خان نے کہا کہ پولیس کی سٹوری کو ذہن نہیں مانتا ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان میں مستغیث اور استغاثہ ایک ہو جاتے ہیں حالانکہ ان میں فرق ہونا چاہئے۔ تھانہ صدر قصور کے علاقہ میں کم سن بچے کو تاوان کی غرض سے اغوا کر کے قتل کر دینے کے مقدمہ میں مبینہ طور پر ملوث دو ملزموں محمد اکرم اور محمد اسد کو پراسیکیوشن کی ناقص تفتیش اور کمزور شواہد کی بنا پر بری کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ڈیڑھ سو سال پرانا قانون ہے کہ ہے ایک سے زاید ملزموں سے مال مقدمہ کی مشترکہ برآمدگی عدالتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہے لیکن پولیس کا آج بھی اس کا علم نہیں ہے۔ پولیس کی ناقص تفتیش نے پورے مقدمہ کو خراب کردیا ہے جس سے شکوک پیدا ہوتے ہیں اور اسی کا ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔