ٹکرائو کی پالیسی بیشک نوازشریف کی عوامی مقبولیت کا باعث بنی ہے تاہم ان کیلئے قانونی رکاوٹیں بعیدازقیاس نہیں

نوازشریف کا نااہلیت مدت اور الیکشن ایکٹ کیسز میں فریق نہ بننے کا فیصلہ اور چیف جسٹس کا یکطرفہ فیصلہ صادر کرنے کا عندیہ

سابق وزیراعظم نوازشریف نے نااہلی مدت اور الیکشن ایکٹ کیسز میں فریق بننے سے انکار کردیا۔ اس سلسلہ میں انکی جانب سے سپریم کورٹ میں تحریری جواب داخل کرایا گیا ہے کہ اگر وہ اس مقدمہ میں فریق ہوں تو جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن سے مقدمہ کی کارروائی سے الگ ہونے کی درخواست کریں۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں داخل کرائے گئے جواب میں نوازشریف نے کہا ہے کہ متذکرہ دونوں فاضل جج انکی اہلیت کے مقدمہ میں شامل رہے ہیں اور اپنی رائے دے چکے ہیں۔ اب کئی متاثر فریق عدالت کے روبرو ہیں اس لئے میں فریق بن کر انکے مقدمات متاثر نہیں کرنا چاہتا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینا بنیادی حق ہے۔ آئین کی دفعہ 62 ایف(1) میں پارلیمنٹ نے نااہلیت کی مدت کا تعین نہیں کیا‘ نااہلی صرف اس الیکشن کیلئے ہوگی جسے چیلنج کیا گیا ہو۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ میں جمہوریت پر پختہ یقین رکھتا ہوں‘ انتخابات میں حصہ لینا پاکستان کے عوام کا حق ہے جبکہ عوام نے کسے منتخب اور کسے مسترد کرنا ہے یہ بھی انہی کا حق ہے۔ ان مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے بنچ کے فاضل رکن مسٹر جسٹس اعجازالاحسن نے نوازشریف کا نام لئے بغیر ریمارکس دیئے کہ وہ کنگ نہیں تو کنگ میکر ہیں‘ جو خود ایماندار نہیں‘ وہ ایماندار لوگوں کو کیسے کنٹرول کریگا۔ دوران سماعت فاضل چیف جسٹس مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا فوجداری مقدمے میں جیل جانیوالا پارٹی سربراہ بن سکتا ہے‘ کیا ایسی صورتحال میں وہ پارٹی کو جیل سے چلائے گا۔ فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر نوازشریف نہ آئے تو ہم یکطرفہ فیصلہ کرینگے اور نوازشریف کے بغیر بھی کارروائی کو آگے بڑھائیں گے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ نوازشریف کسی بھی وقت کیس میں شامل ہونا چاہیں تو وہ فریق بن سکتے ہیں۔ فاضل چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اس کیس میں جو بھی فیصلہ ہوا وہ پارلیمنٹ کے مستقبل سے متعلق ہوگا۔
سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ نے پانامہ لیکس کیس میں 28؍ جولائی 2017ء کو فیصلہ صادر کرتے ہوئے میاں نوازشریف کو آئین کی دفعہ 62 ایف(1) اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 12 ایف (2) کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار دیا اور اس فیصلہ کیخلاف میاں نوازشریف کی دائر کردہ نظرثانی کی درخواست بھی مسترد کرتے ہوئے یہ فیصلہ برقرار رکھا تاہم ان دونوں فیصلوں میں نااہلیت کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا جبکہ آئین کی دفعہ 62 اور اسکی متعلقہ شقوں میں بھی نااہلی کی مدت متعین نہیں ہے چنانچہ نااہلیت کا اطلاق بالعموم متعلقہ رکن کی اس اسمبلی کی مدت تک ہی ہوتا رہا ہے جس کیلئے اس کا انتخاب عمل میں آیا تھا۔ میاں نوازشریف نے نظرثانی کی درخواست میں نااہلیت کی مدت کے تعین کی استدعا بھی کی تھی کیونکہ پانامہ کیس کے فیصلہ کے حوالے سے آئینی اور قانونی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اس فیصلہ کے تحت میاں نوازشریف تاحیات نااہل قرار پائے ہیں تاہم عدالت عظمیٰ نے نظرثانی کی درخواست میں کی گئی اس استدعا کو درخوراعتناء نہ سمجھا اور میاں نوازشریف کی وہی سزا برقرار رکھی جو پانامہ کیس کے فیصلہ میں دی گئی تھی۔ پانامہ کیس کے فیصلہ کے بعد الیکشن ایکٹ کے تحت میاں نوازشریف پارٹی کی سربراہی کیلئے بھی نااہل قرار پائے تو مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کرکے اکثریت رائے سے منظور کرالیا جس کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل قرار پانے والے کسی شخص کیلئے پارٹی صدارت کی نااہلیت ختم کردی گئی۔ اسکے بعد میاں نوازشریف کو دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کرلیا گیا جس پر لاہور ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ناپسندیدگی کا اظہار کیا تاہم قرار دیا کہ پارلیمنٹ ہی قانون سازی کا مجاز ادارہ ہے۔ میاں نوازشریف اگرچہ پانامہ کیس کے فیصلہ کے تحت وزارت عظمیٰ کے منصب سے سبکدوش ہوگئے تاہم انہوں نے اور انکی پارٹی مسلم لیگ (ن) نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا اور اس کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے باوجود عوامی اجتماعات میں اس فیصلہ کی بنیاد پر عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا اور اس تنقید میں بتدریج جارحیت کا رنگ شامل ہوتا رہا جس سے میاں نوازشریف کی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی اجاگر ہوئی۔ اس پالیسی سے میاں نوازشریف کو اس حوالے سے یقیناً سیاسی فائدہ حاصل ہوا کہ وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کا محور بن گئے جس سے لامحالہ انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوا چنانچہ نہ صرف انکے پبلک جلسوں میں عوامی جوش و خروش بڑھنے لگا بلکہ ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کو اپنے مدمقابل امیدواروں پر بڑے مارجن سے سبقت حاصل ہونے لگی۔ اس سلسلہ میں چکوال کے ضمنی انتخاب کے نتائج نے تو ان حلقوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا جو میاں نوازشریف کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے بے دخل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
میاں نوازشریف اگرچہ اس وقت پانامہ کیس کے فیصلہ کے تحت انتخابات میں حصہ لینے کے نااہل ہیں اور یہ نااہلیت فی الوقت اس اسمبلی کیلئے ہے جس کے وہ رکن منتخب ہوئے تھے۔ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے نااہلی مدت کیس میں جو پی ٹی آئی کے نااہل قرار پانے والے رکن قومی اسمبلی جہانگیر ترین کی جانب سے دائر کیا گیا ہے‘ نااہلی کی کسی مدت کا تعین کردیا جاتا ہے جس کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فاضل بنچ کے ریمارکس سے عندیہ بھی مل رہا ہے تو بھی میاں نوازشریف پارٹی قائد کی حیثیت سے آئندہ انتخابات کیلئے اپنی پارٹی کی مہم چلانے کے مجاز ہونگے جبکہ عملاً انہوں نے اپنی پارٹی کی انتخابی مہم شروع بھی کررکھی ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت نااہل قرار پانے کے بعد میاں نوازشریف کو حاصل ہونیوالی عوامی مقبولیت جولائی 2018ء کے انتخابات میں انکی پارٹی کے کام آئیگی اور جو قوتیں ان انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا راستہ روکنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہیں‘ انہیں انتخابی نتائج میں ممکنہ طور پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑیگا۔ میاں نوازشریف نے بھی یقیناً اسی تناظر میں نااہلی مدت کیس اور انتخابی اصلاحات کیس میں عدالت عظمیٰ کے روبرو فریق نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے کہ بادی النظر میں ان مقدمات کا فیصلہ بھی ان کیخلاف ہی صادر ہونا ہے اس لئے عدالت عظمیٰ کے بجائے کیوں نہ وہ عوام کی عدالت سے ہی رجوع کئے رکھیں۔ انکی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ میاں نوازشریف عوام کی عدالت سے سرخرو ہورہے ہیں۔ میاں نوازشریف عدلیہ پر تنقید کا راستہ اختیار کرنے پر غالباً اس لئے مجبور ہوئے کہ انہیں عدلیہ کی جانب سے ماضی کی طرح ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا محسوس نہیں ہورہا۔ اس پالیسی سے بے شک انہیں زبردست عوامی پذیرائی حاصل ہورہی ہے تاہم اس سے اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی فضا ہموار ہوتی ہے تو آئندہ کی سیاست میں ان کیلئے ہی نہیں‘ انکی پارٹی کیلئے بھی قانونی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں کیونکہ ممکنہ طور پر میاں نوازشریف کی یہ پالیسی عدالت عظمیٰ کے متعلقہ بنچ کو ناراض کرنے کا باعث بنے گی اور جس طرح فاضل چیف جسٹس نے گزشتہ روز دوران سماعت عندیہ دیا ہے کہ میاں نوازشریف کے پیش نہ ہونے سے اس کیس کا یکطرفہ فیصلہ صادر کیا جائیگا جو پارلیمنٹ کے مستقبل سے متعلق ہوگا‘ اگر سپریم کورٹ اس کیس کے فیصلہ میں ہر متعلقہ شخص کی نااہلیت کی الگ الگ مدت کا تعین کرکے میاں نوازشریف کی اداروں کے ساتھ ٹکرائو والی پالیسی کی بنیاد پر انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیتی ہے اور پھر انتخابی اصلاحات کیس کے فیصلہ میں کسی نااہل شخص کی پارٹی صدارت سے بھی نااہلیت سے متعلق انتخابی ایکٹ کی شق بحال کر دیتی ہے تو میاں نوازشریف اسمبلی سے ہی نہیں‘ اپنی پارٹی کی صدارت اور سیاست سے بھی آئوٹ ہو جائینگے جس کا مسلم لیگ (ن) کو اس لئے نقصان ہوگا کہ آج انکی پارٹی کی مقبولیت کا میاں نوازشریف پر ہی دارومدار ہے۔ بھٹو قتل کیس میں بھی سپریم کورٹ کے روبرو بھٹو مرحوم کے وکلاء کی جانب سے عدالت عظمیٰ کو چیلنج کرنے کے باعث ہی مخالفانہ فضا استوار ہوئی تھی جس کا متعلقہ بنچ کے فاضل رکن ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اظہار بھی کیا کہ قانون کے تحت بھٹو کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کی گنجائش نکل سکتی تھی مگر انکے وکلاء نے عدالت کو اس حد تک ناراض کر دیا کہ بنچ کو بھٹو کی سزائے موت ہی برقرار رکھنا پڑی۔
اس وقت میاں نوازشریف کیلئے بھی ایسی ہی آزمائش ہے۔ اگر وہ پبلک فورموں پر عدلیہ کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنانے کا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں تو نااہلیت مدت کے تعین اور پارٹی صدارت کیلئے بھی نااہلیت کے حوالے سے وہ ممکنہ طور پر عدالت عظمیٰ سے کسی رعایت کی گنجائش سے بھی محروم ہو سکتے ہیں۔ تاہم وہ اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کی علامت بن کر سسٹم کیخلاف محلاتی سازشوں میں مصروف حلقوں اور عناصر کیلئے ضرور پریشانی کا باعث بنتے رہیں گے۔ اس سیاست میں وہ کتنے ثابت قدم رہتے ہیں‘ اس کا اندازہ آئندہ انتخابات کے نتائج کے بعد ہی ہوسکے گا۔

ای پیپر دی نیشن