ای او بی آئی میں بہت کرپشن، پنشنرز کو دو وقت روٹی نہیں مل رہی: جسٹس عظمت

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میں ای او بی آئی کرپشن و پنشن ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے اٹارنی جنرل کو ادارے کے فنڈز سے ایک ارب روپے بیت المال اور 50کروڑ روپے سیلاب زدگان کو دی گئی رقم واپس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے پنشنر کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے سے متعلق وزیراعظم سے بات کرنے اور اس حوالے سے قانون سازی کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ ای او بی آئی کی سکھر، چکوال، لاہور پراپرٹی کے توسط سے آنے والے بینک ڈرافٹ فوری طور پر ریلز کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 5 مارچ تک ملتوی کردی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ای او بی آئی میں بہت کرپشن ہورہی ہے جن مقاصد کے لیئے ادارہ بنا وہ حاصل نہیں ہوئے پانچ لاکھ پنشنرز کے حقوق کو پامال کیاجارہا ہے، ای او بی آئی فنڈز آگے دینے کی مجاز نہیںجبکہ پنشنرز کو دو وقت کی روٹی تک نہیں مل رہی، پنشن تقسیم کرنے کا سسٹم غلط ہے، اے ٹی ایم کارڈ سے بھی فراڈ ہوتے ہیں، ای او بی آئی کا آڈٹ کیوں نہیں ہوتا آڈٹ کروا کررپورٹ عدالت میں پیش کی جائے، حکومت مسائل کے حل کے لیئے ہوتی ہے سب سے زیادہ حق کمزر کا ہے مگر مسائل پیدا ہی اس لیئے کیئے جاتے ہیں کہ اس سے مخصو ص لوگ فائدہ اٹھائیں،ہر دور حکومت میں ای او بی آئی میں کمزور لوگ تعینات کیئے گئے تاکہ ان سے من پسند مفادات حاصل کئے جاسکیں۔ ای او بی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ پراپرٹی کی تین کیٹیگریز بنانے کی تجویز ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اگر کیس نیب کو بھیجیں گے تو پلی بار گین ہوگی ملزمان کا جگرا بڑھے گا نیب کچھ لوگوں کو پکٹر کر سار مدعا ان پر ڈال کہے گا تم قبول کرو کہ جرم تم نے کیا، جرم قبول کرو گے تو چھوڑیں گے، جو ملزمان پکڑے جائیں گے اگروہ رقم نہیں دیتے تو بیل مانگیں گے، سکیورٹی اداروں کو کیس دینے سے معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وکیل طارق چوہدری نے کہا کہ نیب صرف باتیں کرتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیس کی مائیکرو مینجمنٹ نہیں کرسکتے، ای او بی آئی افسر، سٹاف کے اخراجات بھی ہوں گے ادارے کے ساتھ پی آئی اے والا حساب تو نہیں کیا جارہا۔ ای او بی آئی کے وکیل نے کہا کہ اینول خرچہ 721.8ملین ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بد قسمتی سے 2010 سے 2018 تک عمل درآمد کے لیئے باڈی نہیں بنائی جاسکی ہے قانون سازی کروانا اٹارنی جنرل کا کام ہے وہ پی ایم سے میٹنگ کریں اور پنشن میں مجوزہ اضافہ 5250روپے پر نظر ثانی کریں اس سے ایک آدمی بیوی اور اس کے بچے کیسے گزارا کرسکتے ہیں۔ وکیل نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد ای او بی آئی، ڈبلیو ڈبلیو ایف و دیگر ادارے صوبوں کو دے دیئے گئے، سندھ نے قانون سازی کی مگر اس کے خلاف بھی پٹیشن دائر ہوگئی، وفاق اور صوبے ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈال رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جھگڑا ڈالنے کا مقصد ہے کسی کو کچھ نہ ملے ہر دور میں ایسا ہوا، رقم آئے گئی تو پنشنر کو کو کچھ ملے گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...