رات کو نیند نہیں آرہی تھی سوچا ٹی وی دیکھوں ۔ ایک میڈیا چینل پر خبر دیکھی تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ۔ یہ خبر لاپتہ افراد کے حوالے سے تھی۔ جس میں ایک ماں رو رو کر فریاد کر رہی تھی ۔ دنیا بھر کی دولت دے دو مجھے کچھ نہیں چاہئیے مجھے میرا بیٹا چاہئیے ۔ یہ دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا اورمیں نے ٹی وی بند کردیا۔ میں اس سوچ میں پڑھ گیا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں ۔ جنہوں نے ان کے پیاروں کو لاپتہ کردیا۔ اگر یہ گرفتار ہیں تو انہیںقانون کے کٹہرے میں ہونا چاہئیے ۔ ان کا جرم سامنے آنا چاہئیے لیکن کسی ماں کو بد دعا یا ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہئیے ۔ ایسے کردار نہیں ہونے چاہئیں۔ جو ماروائے عدالت قتل کرکے مائوں کی گودیں اجاڑ دیں ۔ یا لا پتہ کرکے کئی زندگیوں کو بے چینی اور روز جینے اور روز مرنے پر مجبور کردیں۔ ایک مخصوص کمیونٹی کے افراد کی گمشدگی کی کہانیاں تو ایسی ہیں کہ انکے پیارے یہ تک کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمیں تو سن آف دی سوائل ہی نہیں مانا جاتا۔ ایک ایسی فیملی سے ملاقات ہوئی تو انکے الفاظ دماغ میں چبھ کر رہ گئے کہ کاش ہم تاثیر، گیلانی، چوہدری، سومرو، ابڑو، تالپور، زرداری، بٹ ، آفریدی ہوتے تو شاید میڈیا ، ادارے اور حکومت اس پر خاص توجہ دیتی، لیکن میرے اندازے کیمطابق یہ غیرب متوسط طبقہ کی اولادیں ہیں اس لئے کوئی انکا پرسان حال نہیں ۔ اگر امیر کسی کو سر راہ گولی ماردے ، جرگے خواتین کی سر عام عصمت دری کرادیں ۔ شاہ زیب جیسے کرداروں کو معافی مل جائے تو پھر فرسٹریشن کا جنم لینا حقائق کی ایک کڑوی گولی کی طرح ہے۔میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کیونکہ یہ عام پاکستانی کی اولادیں ہیں اس لئے نہ اس پر عدلیہ کا سوموٹو نوٹس ہوتا ہے نہ انکی اپروچ میڈیا تک ہے انکا صرف اللہ ہے اور اسکی لاٹھی بے آواز ہے۔ یہ اگر توجہ کے طالب ہوتے تو انکے ساتھ انصاف کے لئے داخلی اور خارجی راستے سیل ہوجاتے جگہ جگہ تلاشی شروع ہوجاتی۔انہیں تلاش گمشدہ کرنے والے طالبان یا اور کوئی گروپ نہیں بلکہ پاکستان کے ریاستی اداروں کا نام لیا جاتا ہے۔ میں آج ایک کالم نگار کی حیثیت سے اپنے ضمیر کے مطابق اور حقائق کے بہت سے کرداروں سے گفتگو کے بعد یہ سب تحریر کر رہا ہوں ۔ اس پر خاموشی مجرمانہ عمل کے مطابق ہے۔ دوبارہ ٹی وی کھولا تو اب خبروں میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نظر آئے جو انڈین کمیونٹی سے خطاب کر رہے تھے۔ فرما رہے تھے۔انڈیا ہمارا بھائی ہے ہم انڈیا کے ساتھ تعلقات خوشگوار تعلقات کے ساتھ ساتھ تجارتی معاہدے بھی کر رہے ہیں ۔ میرے دل میں خیال آیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جتنا کام کیا ہے ہزاروں فوجی و عام افراد شہید ہوگئے ۔ معصوم بچے آرمی پبلک اسکول میں شہید کر دیئے گئے فورسز کے جوان شہید ہوئے لائن آف کنٹرول پر شہادتوں کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے پھر بھی پاکستان کے ساتھ تجارت اور اس پر مہربانیوں کے بجائے ہرزہ سرائی اور پاکستان کو بلیک میل کرنے کی ہر کوشش امریکہ کر رہا ہے بالکل ایسے جیسے قیام پاکستان کے وقت جارج ریڈ کلف کو وائسرائے نے ہندووں سے مک مکا کرکے کلکتہ اور گورداس پور کو مسلمانوں کے بجائے ہندو اکثریتی علاقہ ڈیکلیئر کراکے پاکستان سے یہ علاقہ چھین لیا تھا۔ پاکستان نے جتنی قربانیاں دی ہیں اسکے جواب میں ڈو مور کے بجائے ہمیں ریلیف اور ہمارے ایف سولہ بقیہ طیارے ملنے چاہئیے تھے ۔ امریکہ ہمیں فنڈ نگ پر طعنے دیتا ہے لیکن ایف سولہ کے طیارے رقم کی ادائیگی کے باوجود نہیں دیتا تو چور کون ہوا ؟ چورمچائے شور کی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ سی پیک جب سے شروع ہوا ہے پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہونے سے روکنے میں ساری قوتیں فعال ہوگئی ہیں میں کہتا ہوں پاکستان زندہ باد ۔ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے انشاء اللہ یہ اپنے پائوں پر تمام سازشوں کے باوجود کھڑا ہوگا۔ ماضی کی طرف دیکھا تو کولن پائول کی ٹیلی فون کال یاد آگئی جس میں صرف یس سر کہا گیا تھا۔ گوانتاموبے جیل ، عافیہ صدیقی اور نا جانے کتنے ایسے لوگ تھے جو کافی عرصے تک لاپتہ رہے کیونکہ یہ امریکہ کی سلامتی کا معاملہ تھا یہ الگ بات کے انکے بدلے پرویز مشرف نے کروڑوں ڈالر وصول کئے۔ یہ لفظ قومی سلامتی پر میں اٹک کر رہ گیا ہوں کہ کیا ’’رات کی تاریکی ‘‘ میں کیا قومی سلامتی لوگوں کو لاپتہ کرنے میں ہے ۔ اگر کچھ لوگوں کو لاپتہ کردینا قومی سلامتی ہے تو وہ تمام لوگ جو مذ ہبی فرقہ واریت کی بنیاد پر پاکستان کے دار ا لحکومت میں کسی کے جذبات مجروح کرنے کے نعرے لگائیں کیا یہ عمل درست ہو سکتا ہے ؟ آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں کو شہید کرنے والے کی حمایت کرنے والے مولانا عبدالعزیز کھلے عام پاکستان میں داعش اور طالبان کی حمایت کا گناہ کریں تو انکے لئے رعایت کیوں ؟کیا یہ قومی سلامتی کا معاملہ نہیں ؟چنددن قبل صوبہ بلوچستان میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے ؟ کیا پاکستان کے اندر قومی سلامتی کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کی حمایت کرنے والی سیاسی اور مذ ہبی جماعتوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت نہیں ؟ یا پاکستان کے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور موجودہ وزیر داخلہ کی ساری توجہ ڈاکٹرعمران فاروق ، ایم کیو ایم ، اور پی پی پی پر مرکوز ہے کیا ملک دشمن عناصر اور فری کراچی مہم ، جیسے ناسوروں کے خلاف حتمی کاروائی کی ضرورت نہیں ؟ہمیں قومی سلامتی نیشنل ایکشن پلان پر اسکی صحیح روح کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے ناکہ سیاسی ایکشن پلان پر ، پاکستان اسوقت چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں ہے ایک موثر حکمت عملی اور سیاست دانوں کو کچلنے لڑائو اور حکومت کرو کے فارمولے سے بچنے کی ضرورت ہے ؟ ملک کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہے ۔ ہم ملک میں جمہوریت کو کچلنے کے کسی صورت حامی نہیں ہوسکتے نا قومی سلامتی پرکوئی سمجھو تہ کر سکتے ہیں ۔