اللہ والے اللہ سے ملاتے ہیں۔ اللہ والوں کا ذکر بھی اللہ سے ملاتا ہے۔ اللہ والوں کا مل جانا عنایت اور ان کے ذکر کا مل جانا بھی بڑے نصیب کی بات ہے۔ اللہ والے ایسے ہیں کہ ان سے مل کر اللہ یاد آ جاتا ہے۔ جسم اور روح اللہ کے ذکر میں ڈھل جاتے ہیں۔ انگ انگ سے اللہ ھو کی صدا آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چرند، پرند ، شجر ، پہاڑ سب اللہ کے ذکر میں محو ہوں۔ اللہ کی مخلوق کی رہنمائی اور تزکیے کے لئے، وقت کے تقاضوں کے تحت اللہ والوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ ان کے ظہور سے باطل قوتیں پاش پاش ہوتی ہیں ، اور فقط حق کی آواز بلند ہوتی ہے جو مخلوقات کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔
اللہ والے محض اللہ کی بندگی میں جیتے ہیں۔ اللہ والے صرف بند ہ ہونا پسند کرتے ہیں ، بندہ ہو کر رہنا ان کا شعار ہوتا ہے۔ اللہ والے جب گزر جاتے ہیں تو ان کی درگاہیں اللہ والوں کا پتا دے رہی ہوتی ہیں، مقام بتا رہی ہوتی ہیں ۔ دونوں جہانوں میں اللہ والوں کو ایسی ہی عزت و عظمت سے سرفراز کیا جاتا ہے۔ اللہ والوں کی محبت اور صحبت اللہ والا کر دیتی ہے۔ رومی تبریزؒ سے ملتا ہے تو بات بن جاتی ہے۔ راز دار،رازنگر کا سفر کرتا ہے ، پردے ہٹ جاتے ہیں ، جلوہ ہوتا ہے تو بس سکوت طاری ہو جاتا ہے۔ دنیا والے تکتے رہتے ہیں اور اللہ والے اللہ ھو کرتے رہتے ہیں۔دنیا والے دنیا کی طرف کھینچتے ہیں۔ اللہ والے اللہ کی طرف کھینچتے ہیں۔ اللہ والے دنیا میں دنیا دار ہو کر رہتے ہیں ۔ اللہ کو پانے کے لئے اللہ کی مخلوق کا خیال رکھتے ہیں، وہ محبت کے داعی ہوتے ہیں، محبت ان کا ایمان ہوتا ہے، وہ بلا رنگ و نسل ساری انسانیت سے محبت کرتے ہیں جبکہ صرف دنیا والے اپنے من کو آسودہ کرتے ہیں ۔ وقت گزرتا ہے تو یہ آسودگی آزردگی میں بدل جاتی ہے تب انہیں خیال آتا ہے کہ ترجیح اللہ اور اور اللہ والوںکی محبت ہو تو بات بن جاتی ہے، ورنہ خسارہ در خسارہ کی راہ مقدر ٹھہرتی ہے۔درحقیقت اللہ والے محبت والے ہوتے ہیں، اور محبت والے اللہ والے ہی تو ہوتے ہیں۔
کیا ہی حسن ہے کہ اللہ والے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اللہ، اللہ والوں کا ذکر کرتا ہے اور مخلوق کی زبان سے بھی اللہ والوں کا ذکر کراتا ہے۔ صدیاں بیت جانے پر بھی وہ ذکر جاری رہتا ہے۔ گنج بخش فیض عالم کی صدا گلی گلی سنائی دیتی ہے ۔ اجمیر کی وادی خواجہ معین الدین چشتی کے ذکر میں دیوانہ ہوئے جاتی ہے۔ پاک پتن میں حق فرید یا فرید کی صدائیں گونجتی ہیں۔ لعل شہباز قلندر کے ہاں جسم اور روح رقص کناں ہوتے ہیں اور خطہ پوٹھوہار کے کلیام میں بنو ہاشم کے چشم و چراغ بابا فضل الدین شاہ چشتی صابری کا ذکر بھی ڈھول کی تھاپ پر ملتا ہے ۔ ذکر والوں کا ذکر جاری رہتاہے۔ چراغ جلتے رہتے ہیں، لوگ اللہ والوں کی طرف چلتے رہتے ہیں ۔ اس سفر میں ہرگز کمی نہیں آتی ، بگڑی بنتی رہتی ہے۔
وقت کے تقاضوں کے تحت، مخلوق کو اللہ والوں کے فرائض سونپے جاتے ہیں۔ کبھی اقبالؒ کو یہ وصف عطا ہوتا ہے کہ وہ مخلوق کی نظریاتی حدود کی پاسداری کرے اور کبھی محمد علی جناحؒ کو یہ خاصیت عطا ہوتی ہے کہ اللہ کے نام لیوائوں کی دادرسی کرے اوران کے لئے جغرافیائی و ارضی حدود کا تعین کرے۔ ایسے مسیحائوں اور اللہ والوں کی آمد وقت گزرنے کے ساتھ ہوتی رہتی ہے اور مخلوق کے غم غلط ہوتے رہتے ہیں۔
اللہ والوں سے نسبت اور صحبت اللہ کے قریب کرتی ہے۔ گلاب کی جڑوں سے لپٹی مٹی سے پھر گلاب کی مہک آتی ہے۔ مٹی پھر مٹی نہیں رہتی۔ دیکھنے میں مٹی، سونگھنے میں گلاب ہوتی ہے۔خود کو مٹی کرنے والے سونے کے بھائو بکتے ہیں۔ بلال حبشیؓ کی مٹی کی قدر کوئی نسبت والوں سے پوچھے ، اللہ والوں سے پوچھے ۔ نسبت سے ظاہر و باطن انگڑائی لیتے ہیں۔ انا کے بت پاش پاش ہوتے ہیں۔ کذب بیانی رفع ہوتی ہے۔ بغض ، حسد ، کینہ ، لالچ ، حرص و ہوس کی فصل اپنے انجام کو پہنچتی ہے اور دل کی ذرخیز مٹی سے اللہ اور اللہ والوں کے ترانے اگتے ہیں۔ اللہ والے جسمانی و روحانی بیماریو ںسے نجات دلاتے ہیں ، یہی ان کے اوصاف ہیں ،اور یہی ان کی نشانیاں ہیں۔ فیضان صحبت کی بات ہی اور ہے۔اللہ والوں اورصحبت والوں کو پھر کُن کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اللہ، اللہ والوں کی زبان بن جاتا ہے، آنکھ بن جاتا ہے، ہاتھ بن جاتا ہے۔اللہ والے، اللہ کی زبان سے جب ’’ہو جا‘‘ کہتے ہیں تو پھر ’’ہوجانے‘‘ میں دیر نہیں لگتی۔دیکھنے والی آنکھ پھر دل کی دنیا بدل کر رکھ دیتی ہے۔ ادراک کرنے والے کہنے میں تامل نہیں کرتے کہ ’’خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے‘‘۔
نظر میں تنگی نہیں رہتی ، وسعت آ جاتی ہے۔ اللہ والے، اللہ کی مخلوق کی محبت میں جیتے ہیں۔ وہ ہر ایک کو قبول کرتے ہیں اور مخلوق میں بھی قبول کرنے کی خو ڈالتے ہیں۔ وہ نفرت کے پہاڑ گراتے ہیں اور محبت کے چشموں سے سیراب کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اچھے برے کی تخصیص یا درجہ بندی نہیں ہوتی۔ وہ اچھی بری مخلوق کو قبول کرتے ہیں۔ ان کے ہاں برے، اچھے ہو جاتے ہیں۔لوح بدل جاتی ہے۔ و ہ بہنے والے آنسوئوں کا ادراک کرتے ہیں۔ تھرتھراتی زبان کی پکار کوسمجھتے ہیں ، چہرے پر پڑی جھریوں کی داستان کا فہم رکھتے ہیں۔ کسی کے پائوں میں پڑے چھالوں کا احساس کرتے ہیں۔ یہ اللہ والے ہی تو ہیں۔
آج اللہ والوں کا چلن جگہ جگہ دکھائی دیتا ہے۔ کہیں افلاس مٹانے کے لئے لنگر چلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے اللہ والوں کی طرف سے ہے۔ کہیں اللہ والوں کی جانب سے پیاس بجھانے کے لئے سبیلیں لگائی جاتی ہیں۔کہیں ناداروں کا جسم پوشاک سے ڈھانپا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ والوں کا فیض ہی تو ہے۔اللہ والے مخلوق سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں۔ اللہ والے گمنامی میں نیک نامی کماتے ہیں۔ اجڑے دیار کو بساتے ہیں۔ آزردہ دلوں کو آسودہ کرتے ہیں۔ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت ہو جاتے ہیں۔ وقت آنے پر لباس بن جاتے ہیں ، بالکل ایسے ہی جیسے جنت کے پتوں نے آدم و حوا کو ڈھانپ لیا تھا۔ اللہ والا ہونا ہر چند مشکل ہے مگر ناممکن تو نہیں ، بس اللہ والوں کے پہلو میں بیٹھنے اور ان کے اوصاف اپنانے کی ضرورت ہے اور ضرورت جب محبت میں بدل جائے تو بات بن جاتی ہے۔