ڈیکلریشن کی موجود گی تک نااہلی رہے گی‘ہماری نظر میں آرٹیکل 62اور63 آزاد اور الگ الگ ہیں: سپریم کورٹ

 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ فرض کرلیں آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے . اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل کام ہوگا. جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی تو نااہلی رہے گی. ہماری نظر میں آرٹیکل 62اور63 آزاد اور الگ الگ ہیں. ممکن ہے نااہلی کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کردیں. عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کالعدم کیسے قرار دے سکتی ہے. جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایمانداری کا تعین کرسکتی ہے. بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایمان دار کیسے ہوجائے گا؟ قانون ساز نہیں چاہتے کہ بے ایمان شخص قانون سازی میں حصہ لے ہمیں اپنے آئیڈیل لوگوں کے معیار بلند رکھنے چاہئیں۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی سابق سپریم کورٹ بار کی صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ووٹرز کے لئے کوئی اہلی یا نااہلیت نہیں ہوتی‘ کسی شخص کی اچھی شہرت اور برے کردار کا تعین کیسے ہوگا؟ جسٹس عمر عطاءبندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ٹھوس سوالات کو حل کرسکتی ہے عدالت مفروضے پر مبنی سوالات کو حل نہیں کرسکتی ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا سوال ٹھوس ہے؟ وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ نظریہ پاکستان کا معاملہ ہو تو تعین کون کرے گا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے نظریہ پاکستان کا سوال نہیں ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پارلیمنٹ تاحال آزاد نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے یہ تاثر درست نہیں کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں، فرض کرلیں آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے عدالت کسی مبہم آرٹیکل کو کیسے کالعدم کرسکتی ہے؟ کسی مبہم آرٹیکل کی تشریح کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ایمانداری کا تعین کرسکتی ہے بے ایمان شخص کچھ عرصہ بعد ایماندار کیسے ہو جائے گا؟ قانون ساز نہیں چاہتے کہ بے ایمان شخص قانون سازی میں حصہ لیں عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیئے کہ 1962 کے آئین سے پہلے پروڈو اور ایبڈو آیا ان دو قوانین سے سات ہزار سے زائد لوگوں کو نااہل کیا گیا نااہلی اس ملک کے لئے نئی بات نہیں ہے عدالت نے اس پر ریمارکس دیئے کہ اب اس مقدمے میں کسی اور کو نہیں سنیں گے۔ پیر کو اٹارنی جنرل دلائل دیں وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بنیادی حقوق آئین کا دل اور روح ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف مبہم ہے تسلیم کرتے ہیں اس آرٹیکل کی تشریح کرنا مشکل ٹاسک ہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں آئیڈیل لوگوں کے معیار بلند رکھنے چاہئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اتنے اعلیٰ معیار کے لوگ باہر سے لے آئیں پاکستان میں نہیں میں گے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عام آدمی اور منتخب نمائندوں کے لئے معیار مختلف ہونے چاہئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ آرٹیکل 62 اور 63 ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر 62ون ایف کے تحت عدالت کسی کو غیر ایماندار قرار دے تو نااہلی کی مدت کیا ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نااہلی کی مدت ڈیکلریشن کے برقرار رہنے تک موجود رہے گی۔ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کی مدت کیوں نہیں لکھی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہماری نظر میں آرٹیکل 62 اور 63 آزاد اور الگ ہیں جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی تو نا اہلی موجود رہے گی‘ ممکن ہے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کریں۔ پھر اس صورت میں کیس ٹو کیس فیصلہ کیا جائے گا یہ ادارہ قائم رہے گا بہت سمجھدار لوگ اس ادارے میں آئیں گے۔ کیس کی مزید سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی گئی۔ 

ای پیپر دی نیشن