سپریم کورٹ نے میموگیٹ کیس کی سماعت کے دوران سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حالیہ بیان کے تناظر میں رجسٹرار آفس سے اس بات کی وضاحت طلب کرلی کہ یہ کیس چار سال بعد کیوں لگایا گیا؟۔جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے میموگیٹ کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران وزارت داخلہ ،وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام پیش ہوئے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے حال ہی میں شائع ہونے والے حسین حقانی کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے پاکستان آنے اور عدالتی اختیارِ سماعت سے انکار کیا۔بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ حسین حقانی نے بیان دیا کہ میموگیٹ دوبارہ کھولنا سیاسی تماشہ ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت کیا سیاسی تماشے ہوئے ہمیں علم نہیں۔جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ حسین حقانی کی واپسی کےلئے کیا اقدامات کیے گئے؟ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ حسین حقانی نے 4 دن کے نوٹس پر پیش ہونے کی یقین دہانی کرائی لیکن پوری نہیں کی۔چیف جسٹس نے رجسٹرار آفس سے اس بات کی وضاحت طلب کرلی کہ 4 جون 2013 کو میمو کمیشن 4 ہفتے بعد لگانے کا حکم تھا کیس 4 سال بعد کیوں لگا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو یقین دہانی کروائی کہ حسین حقانی کی واپسی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے سیکرٹری داخلہ ،سیکرٹری خارجہ اور ایف آئی اے سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک ہفتے کےلئے ملتوی کردی۔یاد رہے کہ 5 فروری کو اپنے ایک بیان میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے میمو گیٹ کیس دوبارہ کھولے جانے کو سیاسی تماشہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے بعد 4 چیف جسٹس آئے کسی نے کیس کو ہاتھ نہیں لگایا۔