امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ افغانستان میں اسلامی قوانین کا احترام یقینی بنایا جائیگا اور اپریل کے آخر تک افغانستان سے امریکی فوج نکال لی جائیگی۔ گزشتہ روز سٹیٹ آف یونین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے باور کرایا کہ عظیم قومیں نہ ختم ہونیوالی جنگیں نہیں لڑتیں۔ دوسری جانب امریکہ اور طالبان میں ہونیوالی ماسکو کانفرنس میں طالبان نمائندگان کی جانب سے تقاضہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں غیرملکی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔
لاابالی طبیعت کی شہرت رکھنے والے صدر ٹرمپ کبھی کبھی دانش مندانہ بات بھی کر جاتے ہیں۔واقعی عظیم قومیں ایسی جنگی نہیں لڑتیں جو ختم ہونیوالی نہ ہوں مگر یہ سب امریکہ کے اوپر منطبق نہیں ہوتا۔ اچھا ہوا ٹرمپ کو جلدی خیال آگیا۔ وہ امریکہ کو عظیم قوموں کی صف میں کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔امریکہ نے نہ صرف طویل جنگیں لڑی ہیں بلکہ ایسی جنگیں بھی لڑی ہیں جن کا کوئی منطقی انجام نہیں ہوا۔ بہت سی ایسی جنگیں بھی لڑی ہیں جو اسکے گلے کا پھندا بن گئیں‘ ان میں ایک افغان وار بھی شامل ہے۔ پاکستان نے ایک بار پھر خلوص کا مظاہرہ اور حق دوستی ادا کرتے ہوئے امریکہ کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کیا۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کئے تو اس میں ایک مثالی پیشرفت ہوئی۔ طالبان امریکی انخلا سے قبل مذاکرات کرنے کیلئے تیار نہیں تھے‘ پاکستان کے کردار ادا کرنے پر وہ مذاکرات کیلئے تیار ہوئے تو اب نوبت جنگ بندی اور انخلاء کے معاہدے تک پہنچ چکی ہے۔ماسکو میں افغان کانفرنس ایک مرتبہ پھر کامیاب ٹھہری تو یقینا افغان مسئلہ کے حل کیلئے یہ کانفرنس کلیدی ثابت ہوگی۔طالبان بہت کچھ گرم و سرد دیکھ چکے ہیں۔ ہوسکتا ہے اب وہ پہلے کی طرح عالمی برادری کے ساتھ ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار نہ کریں جس کا انہیں بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑا۔خود وہ بھی کہتے ہیں کہ امریکی انخلا کے بعد وہ صورتحال کو دانشمندی سے کنٹرول کرینگے۔افغانستان افغانوں کا ہے غیر ملکی طاقتیں افغانستان میں آتی رہی ہیں مگر آپس کی قتل وغارت میں افغان ہی شامل رہے ہیں۔اشرف غنی انتظامیہ کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ ان کو تنہا چھوڑ کر نہ جائے۔ امریکہ اسی صورت میں یعنی معروضی حالات میں انخلا کر جاتا ہے تو طالبان تین دن بھی اشرف غنی انتظامیہ کو نہیں چلنے دینگے۔ ماضی میں یہ بھیانک تجربہ ہو چکا ہے۔ امریکہ دوستوں کے زور دینے پر افغانستان میں ایک مضبوط سیاسی سیٹ اپ قائم کرنا چاہتا ہے‘ یہی طالبان اور اشرف غنی سمیت افغانستان کیلئے بہتر ہے۔ اشرف غنی کو ہٹ دھرمی سے کام لینے کی بجائے عبوری حکومت کا حصہ بننا چاہیے اور طالبان کے عبوری حکومت میں شامل ہونے پر تحفظات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔