وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد ان دنوں ملک کے مختلف شہروں کے دورے کر رہے ہیں۔ اس دوران وہ اپنی سیاسی حسکے مطابق میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چٹخارے دار بیانات داغ کر خود کو سیاسی منظرنامہ میں ان کئے ہوئے ہیں۔ شیخ رشید پرانے سیاستدان ہیں اور اس اعتبار سے وہ سیاست میں مصالحے اور چٹخارے دار گفتگو کرتے ہوئے ان رہنے کا فن بخوبی جانتے ہیں لہٰذا بطور وفاقی وزیر ریلوے ریلوے کے ذریعے ملک کے مختلف شہروں کے دورے ان کو خوب راس آرہے ہیں۔ انکے اس دوروں کے ذریعے سیاسی گرماگرمی کا ماحول بھی ابھر کر سامنے آ رہا ہے لیکن شیخ رشید کو شاید اپنے کسی بیان پر مخالف کی بیان بازی کا کوئی اثر نہیں اور اسی سیاسی حس کی بدولت وہ ہر دورے کے دوران بھرپور انداز میں سابقہ حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) اور اس جماعت کے قائدین شہبازشریف اور نوازشریف کو بھی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ گزشتہ روز شیخ رشید احمد نے پاکستان کے تیسرے اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد کا بھی دورہ کیا۔ گو ان کے دورے کے دوران فیصل آباد ریلوے سٹیشن پہنچنے والی ایک ٹرین کو چک جھمرہ کے قریب 40منٹ تک روکے رکھا گیا۔ شیخ رشید احمد 21گاڑیوں کے پروٹوکول میں فیصل آباد میں فراٹے مارتے پھرتے رہے۔ فیصل آباد دورے کے دوران انہوں نے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں میڈیا سے گفتگو کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تقریب میں پرنٹ میڈیا مدعو نہیں تھا صرف الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے پنڈی کے شیخ رشید روایتی انداز میں بھڑک باز ہوتے نظر آئے۔ شیخ رشید نے فیصل آباد میں بلاول بھٹو زرداری سے صلح ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کیخلاف مزید کوئی بات کرنے سے انکار کیا تاہم انکی طرف سے ایک بات کو سیاسی حلقوں کی طرف سے گہرائی کی نگاہ سے دیکھا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ شہبازشریف کو پروڈکشن آرڈر پر بار بار اسمبلی میں کیوں آنے دیا جاتا ہے اگر انہیں عمران خان کی دوستی اور محبت کا خیال نہ ہو تو وہ بتا دیں۔ شیخ رشید نے یہ بات کس وجہ سے کہی اور اس کے پس منظر میں کوئی حقیقت موجود ہے یا پھر روایتی انداز میں انہوں نے میڈیا کے ذریعے سیاسی حلقوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے یہ بیان داغا ہے جس کا پٹارا اگر کھولا جائے تو ہو سکتا ہے وہ خالی بھی نکلے لیکن انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ شریف برادران کو مفت میں این آر او نہیں ملے گا۔ مختلف سیاسی حلقے اور خود حکمران جماعت تحریک انصاف کے کئی اہم رہنما اور ارکان اسمبلی جن کی بنی گالہ تک رسائی موجود ہے وہ مختلف نجی محفلوں میں آف دی ریکارڈ یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ حکومت نے شریف برادران کو ماضی کے مبینہ کرپشن کیسز اور مبینہ کرپشن سکینڈلز سے ریلیف دینے کیلئے گیارہ ارب ڈالر کا پیکج آفر کر رکھا ہے جس پر انہی کے مطابق شریف برادران رقم کی ادائیگی کے حوالے سے کسی ڈیل کے منتظر ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی آج بھی مضبوط جماعت نظر آ رہی ہے اور آصف علی زرداری کے گرد کیسز کے انبار لگنے کے بعد انکا سیاسی کردار سندھ میں پیپلزپارٹی کی اہمیت کو اجاگر کر رہا ہے۔ انہی حالات و واقعات کے پیش نظر جو سیاسی بیانات سامنے آ رہے ہیں اس بیچ گزشتہ روز بلاول بھٹو زڑداری اور شیخ رشید کے درمیان تلخ کلامی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی اور اب اگر شیخ رشید یہ بیان داغ رہے ہیں کہ ا کی بلاول سے صلح ہو چکی ہے تو پھر انہیں یہ بھی بتانا ہو گا کہ انکی صلح کس نے کروائی اور کیسے ہوئی؟ کیا آصف علی زرداری کے ساتھ بھی موجودہ حکومت کی صلح ہو چکی ہے اور کیا وجہ ہے کہ آصف علی زرداری کو مسلسل ڈھیل بھی حاصل ہے اور وہ آزادی کا ریلیف بھی انجوائے کر رہے ہیں حالانکہ خود حکمران جماعت کے سربراہ اور اس وقت کے وزیراعظم عمران خان 2018ء کے انتخابات سے پہلے سندھ کی انتخابی مہم کے دوران شاہ محمود قریشی کے ہمراہ مختلف جلسوں کے سٹیجز پر کھڑے ہو کر یہ طعنہ دیتے رہے ہیں کہ سندھ کی سب سے بڑی بیماری آصف علی زرداری ہیں۔ آج اسی آصف علی زرداری سے شیخ رشید صلح کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف عمران خان جن کی محبت اور دوستی کا وہ واویلا کر رہے ہیں ان کا موقف اس بارے میں مختلف نظر آ رہا ہے۔ دراصل موجودہ حالات و واقعات میں سیاسی کھچڑی پک چکی ہے اور اس کھچڑی کے لوازمات کیا تھے اس کا کسی کو اندازہ نہیں ہو پا رہا۔ سیاسی تجزیہ نگار اور باخبر حلقے بھی اس سارے کھچڑی کا اندازہ اسکے ذائقے سے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اندازہ ہے کہ کسی کو ہو نہیں پا رہا۔ البتہ سابق حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) ایک مرتبہ پھر اپنے پرانے موقف کے ساتھ دبے دبے انداز میں سامنے آتی نظر آ رہی ہے۔ گزشتہ روز علیم خان کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ(ن) کا موقف سامنے آیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے تحریک انصاف نے خواہش مند اور اندرون خانہ امیدوار ہونے کی بات آئی تو علیم خان کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اب اندرون خانہ کیا ہو رہا ہے اسکے بارے میں حتمی رائے آنیوالے دنوں میں قائم ہو جائیگی۔ فیصل آباد شیخ رشید کی آمد اور رخصت نے سیاست کو کوئی رنگ تو نہیں دیا البتہ فیصل آباد میں ایک نئی ٹرین چلانے کی اور فیصل آباد ریلوے ٹریک کو دو رویہ کرنے کی بھڑک لگائی ہے ایسی باتیں ماضی میں بھی ہوتی رہیں، دیکھنا ہو گا اس کے عملی ثمرات سامنے آتے ہیں یا نہیں؟