ـ"کاٹن پر باتیں نہیں عملی کام "

کاٹن کی پیداوار میں تشویش ناک کمی کے بعد حکومت اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کی آنکھیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں وہ کہتے ہیں نہ کہ (بہت دیر کی مہربا ن آتے آتے )گذشتہ ہفتہ اسلام آباد میں ایک کاٹن کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں حکومتی وزرا ء اور PCGAکے عہدے داران نے شرکت کی اورکاٹن کی تباہی پر گفتگو ہوئی ویسے تو یہ سلسلہ دو چار سالوں سے جاری ہے لیکن رزلٹ سامنے نہیں آیا اس طرز کی کانفرنس سندھ اور پنجاب میں بھی ہو رہی ہیں کمال یہ ہے کہ اس کے باوجود پورے پاکستان میں کچھ بھی ایسا نہیں ہو رہاجس سے پتہ چلے کہ کاٹن کی فصل کو بہتر کرنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے سندھ کے ساحلی علاقوں میں رواں ماہ میں کپاس کی بیجائی شروع ہو جائے گی وہاں پر وہی روایتی بیج میسر ہیں وہی طریقہ کار ہے سندھ کی وزارت زراعت ویسے بھی ان معاملات میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی پاکستان میں کاٹن ریسرچ کے ادارے دو طرح کے مسائل کا شکار ہیں ایک فنڈز نہیں ہیں دوسرا آپس میں کوئی ورکنگ رشتہ نہیں ہے اور صوبائی اور وفاقی کاٹن ریسرچ پر کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ابھی تک 80کی دہائی کی طرز پر ریسرچ ہو رہی ہے دنیا کاٹن سیڈز کے آٹھویں جینز پروگرام میں شامل ہو گئی ہے اور ہم پہلے میں بھی نہیں ہیں سانگھڑ میں کامیاب ہونے والا سیڈ راجن پور میں بھی لگ جاتا ہے اور راجن پور پہنچ کر ناکام ہو ہو جاتا ہے مطلب سیڈ پر یہ ریسرچ ہی نہیں ہوتی کہ یہ کونسے علاقے میں کامیاب ہو گاحکومت کم از کم ہر سیڈ کمپنی کو اس کا پاپند تو کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ہر بیگ پر لکھیں کہ یہ کونسے علاقے میں تیار ہوا ہے اور اس کے ریشے کی لمبائی اتنی ہو گی پاکستان کی مشکل سے کوئی ایک دو سیڈ کمپنیاں ہیں جو اپنے سیڈ پر سے الگ ہونے والی کاٹن کا لیب ٹیسٹ کرواتی ہیں ورنہ وہی 80کی دہائی والی پریکٹس چل رہی ہے اب جو کمپنی اپنے سیڈ پر سے الگ ہونے والی کاٹن کا لیب ٹیسٹ کرائے گی وہی اپنے سیڈ کے تھیلے پر ریشہ کی لمبائی لکھ سکتی ہے اب یہ کام ہے صوبائی حکومتوں کا کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس کسی بھی سیڈ کمپنی کے لائسنس کو ختم کرنے کا اختیار نہیں ہے یہ تمام اختیار ات صوبوں کے پاس ہیں اب سوال یہ ہے کہ کاٹن ریسرچ اور کاٹن ایکٹ کو کامیاب کرنے کیلئے کس کے پاس اختیار ہیں اور کون عمل کرواسکتا ہے اس بارے ہر طرف سناٹا ہے اب وفاق کے ایک دو ریسرچ ادارے کہتے ہیں کہ ہم اچھی کاٹن سیڈ ز کی ورائٹیز بنا کر پنجاب سیڈ کارپوریشن کو دیتے ہیں لیکن پنجاب سیڈ کارپوریشن اس کو ملٹی پلائی ہی نہیں کرتا مطلب ورائٹی بنتی ہے لیکن وہ کسان تک پہنچ ہی نہیں سکتی اندازہ ہے کہ درجنوں کاٹن سیڈ ورائٹیز بن کر کاغذات میں دفن ہو گئی ہیں اب ان معاملات پر تو ایک ایسی اتھارٹی کی ضرورت ہے جو تمام کاٹن ریسرچ اداروں کو مربوط کر کے ان سے جواب طلبی بھی کرے اس کے ساتھ ساتھ کاٹن سیڈز کمپنیوں کی مانیٹرنگ بھی کی جائے کمپنیاں کونسے سیڈ ز ملٹی پلائی کر رہی ہیں کیونکہ BTکاٹن کے کئی ایسے بیج ہیں جو پانچ دفعہ سے زیادہ ملٹی پلائی ہوں تو وہ60فیصد اپنی افادیت کھو دیتے ہیں مطلب ان کی فی ایکڑ پیدوار بہت کم رہ جاتی ہے یہ جو کاشتکار کہہ رہے ہیں کہ فصل بہت کمزور ہے اس کی وجہ ایسے سیڈز ہی ہیں دوسری طرف جس پر اس وقت کاٹن سٹیک ہولڈرز کی نظر کم ہے وہ زرعی ادویات ہیں یہ تو سارا پاکستان جانتا ہے کہ پاکستان میں زرعی دوائی بنانے کا کوئی کارخانہ نہیں ہے 75فیصد زرعی ادویات چین اور دیگر ممالک سے امپورٹ ہوکر آتی ہیں پاکستان میں صرف ان کی پیکنگ کی جاتی ہے اس کا صاف صاف مطلب ہے کہ پاکستان میں کپاس کے پورے پر استعمال ہونے والی کسی زرعی دوائی پر ریسرچ نہیں ہوتی جب ایک چیز بنتی ہی نہیں ہے تواس پر ریسرچ کیسے ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ سفید مکھی جو چار سال سے کاشتکار کی اربوں کی کپاس کھا جاتی ہے اس پر 100فیصد کوئی بھی زرعی دوائی کام ہی نہیں کرتی اب یا تو سفید مکھی کے خاتمے کے لئے چینی ماہرین کام کریں اور ایسی دوائی دیں جس سے سفید مکھی پہلے ہی سپرے میں ختم ہو جائے کیونکہ چین میں سفید مکھی ہوتی ہی نہیں ہے اس لئے اس کی زرعی دوائی بھی نہیں بنتی پاکستان میں کاشتکار اب کپاس کی فصل سے بد دل اورمایوس ہو چکا ہے اور اگلے سیزن 2021-22میں کپاس کی بیجائی کم رہے گی اگر حکومت چاہتی ہے کہ کاشتکار کاٹن لگائیں تو اسے معیاری کاٹن سیڈ معیاری دوائی اور معیاری ہی رہنمائی دینی ہو گی نہیں تو روئی (نیچرل فائبر )بھول کر پولسٹر ،وسکوس اور ٹینسل (مین میڈ فائبر ) بنانے کے کارخانوں کی جانب آنا ہو گا ورنہ ٹیکسٹائل میں جو 50ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری ہے وہ ضائع ہو جائے گی۔

ای پیپر دی نیشن