کرونا سے شفایاب کرنیوالی چینی ویکسین کا استعمال جاری افتتاح وزیراعظم نے کیا

Feb 08, 2021

: چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com

پاکستان بھر میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین لگانے کا عمل شروع ہو گیا ہے، وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ویکیسن لگانے کے عمل کاآغاز کیا ،ویکسینیشن کے پہلے مرحلے کے دوران طبی عملے کو چین کی کمپنی سائنو فارم کی تیار کردہ کووڈ 19ویکسین لگائی جارہی ہے۔پاکستان کے سب سے قریبی دوست چین کی جانب سے اس ویکسین کی 5لاکھ خوراکیں تحفے کے طور پر پاکستان کو دی گئی تھیں۔ ویکسین کی ایک فرد کو 2خوراکوں میں استعمال کرائی جائیں گی۔جنوری کے دوسرے عشرے کے دوران پاکستان نے چین کی اس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے منظوری دی تھی۔پاکستان کی جانب سے اس ویکسین کی 11لاکھ خوراکوں کی بکنگ کرائی جاچکی ہے۔اس سے قبل 16جنوری کو ڈریپ نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا کی کووڈ 19ویکسین کی پاکستان میں استعمال کی منظوری دی تھی، تاہم اس کی آمد مارچ تک متوقع ہے۔2020کے آغاز میں چین میں کورونا وائرس کی وبا کے ساتھ اس ویکسین کے ٹرائلز کا آغاز ہوا تھا اور جنوری کے شروع میں چین میں اس کے استعمال کی منظوری دی گئی۔یہ ویکسین مدافعتی نظام کو نئے کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز تیار کرنے میں مدددیتی ہے، یہ اینٹی باڈیز وائرل پروٹین یعنی اسپائیک پروٹینزسے منسلک ہوتی ہیں۔
 دوست ملک چین کی وجہ سے پاکستان اب ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا جہاں کووڈ 19ویکسین کا اسٹاک موجودہے۔ویکیسن کی پہلی کھیپ مکمل طور پر اس وباء کے خلاف جنگ لڑنے والے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو لگائی جارہی ہے،ملک بھر میں ایڈلٹ ویکسینیشن مراکز قائم کیے جا چکے ہیں اور ویکسینیشن کا تمام تر عمل ڈیجیٹل میکانزم سے کنٹرول کیا جا رہا ہے۔تمام ہیلتھ گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ویکسین وفاقی اکائیوں کو فراہم کی گئی ہے ۔یکم فروری کی سہ پہر پاک فضائیہ کا خصوصی طیارہ چین سے  عطیہ کی گئی ویکیسن کی پہلی کھیپ لے کر پاکستان پہنچا تونور خان ایئربیس پر چین کی چین کی ٹیم کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے استقبال کیا ۔اس موقع پر وزیر خارجہ کے ساتھ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور چینی سفیر نونگ رونگ کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے اہم عہدیدار موجود تھے۔
نور خان ایئر بیس پر ویکسین کی حوالگی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر نونگ رونگ نے کہا کہ آج چینی حکومت کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کے بارے مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان دنیا میںپہلا ملک ہے جسے چینی حکومت کی جانب سے اس کی کھیپ عطیہ کی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا یہ ویکسین  پاکستان کی محض ضرورت ہی نہیں بلکہ یہ ہمارے بھائی چارے کا عملی نمونہ بھی ہے۔چینی سفیر نے کہا کہ صدر شی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ چین نے اپنے وعدے پر پورا اترتے ہوئے ایک ماہ کے اندر ہی دنیا بھر کو ویکسین کی فراہمی یقینی بنا رکھی  ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دیرینہ دوست کی حیثیت سے ہماری پہلی ترجیح ہے ۔سینوفارم ویکسین کے ایمرجنسی بنیادوں پر استعمال کی منظوری اور اس سلسلے میں تعاون کرنے پر ہم پاکستان کے شکر گزار ہیں، ہمیں امید ہے کہ اس دوطرفہ تعاون سے مزید لوگ بھی استفادہ کریں گے۔نونگ رونگ نے کہا کہ رواں سال پاکستان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 70ویں سالگرہ  بھی ہے، ہمیں اس دوستی پر فخر ہے۔ چین اقتصادی راہداری سمیت دوطرفہ تعلقات کے تحت پاکستان کو اس وبا سے پاک کرنے کی مہم، اورمعیشت کی بحالی کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا ۔چینی سفیر کے خطاب کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان سے باضابطہ طور پر کورونا وائرس کی ویکسین وصول کی۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ اپنی لازوال دوستی کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سال چین کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات کو  7دہائیاں مکمل ہونے کو ہیں اور ہمارا واضح منصوبہ ہے کہ ہم اس سال کو شایان شان طریقے سے منائیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ میں حکومت پاکستان، وزیر اعظم عمران خان اور پاکستان کے عوام کی طرف سے چین کی حکومت خصوصا صدر شی جن پنگ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ویکسین تیار کر کے مفاد عامہ اور لوگوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے اس کی  تقسیم کا آغاز پاکستان سے کیا ہے۔ یہ عملی ثبوت پاکستان چین دوستی کا مظہر ہے۔اس موقع پر انہوں نے اسٹیٹ قونصلر وزیر خارجہ وونگ گی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے  بتایا کہ ان کی خصوصی کاوش سے چین نے پاکستان کو  5 لاکھ خوراک بطور تحفہ پیش کرنے کی خوشخبری دی۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جس دن سے ہم نے وزیر اعظم کی سربراہی میں کووڈ-19کا مقابلہ کرنے کا آغاز کیا، ہم نے ایک حکمت عملی اپنائی، این سی او سی اور وزارت صحت نے اپنا کام شروع کیا تو برادرملک چین ہمارے شانہ بشانہ کھڑا رہا اور اس کے ماہرین  جس طرح ہماری مدد کرتے رہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی اور چین کے ڈاکٹرز نے یہاں تشریف لا کر ہمارے ڈاکٹرز کی رہنمائی کی اور اپنے تجربات ہم سے شیئر کیے ۔جس سے ہماری ٹریننگ کیلئے بھی قابل ذکر مواقع میسر آئے۔  کینسائنو کے نام سے ویکسین کی تیاری کیلئے بھی چین اور پاکستان مل کرکام کر رہے ہیں جس کے ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں۔
 وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے چین  کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ چین  پہلا ملک ہے جس نے پاکستان کو کووڈ۔ 19ویکسین تحفے میں دی ہے۔ سب سے پہلے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو ویکسین دی جائے گی، ویکسین کے لیے 4لاکھ سے زیادہ ہیلتھ ورکرز نے درخواست دی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ویکسین کو ذخیرہ اور مختلف وفاقی اکائیوں خصوصا سندھ اور بلوچستان کو فضائی راستوں سے فراہم کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر لیے گئے ہیں۔انہوں نے  بتایا کہ سرکاری اور نجی شعبہ دونوں  پاکستان میں ویکسین لاسکیں گے لیکن نجی شعبے کو ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان(ڈی آر اے پی)کے پاس اپنی ویکسین رجسٹر کروانی ہوگی۔
 خصوصی طیارے سے  ویکیسن کی پہلی کھیپ  پاکستان پہنچنے پر اسے اسلام آباد میں مرکزی اسٹوریج سینٹر میں منتقل کر دیا گیا تھا۔جس کے بعدتمام ہیلتھ گائیڈ لائنز کو مدنظر رکھتے ہوئے ویکسین وفاقی اکائیوں کو فراہم کی گئی ۔ ویکسین کی منتقلی کے پلان کو این سی او سی نے حتمی شکل دی تھی۔درجہ حرارت کو برقرار اور وقت بچانے کے لیے سندھ اور بلوچستان اور گلگت بلتستان کو ویکسین طیاروں پر فراہم کی گئی۔ویکیسن کی پہلی کھیپ مکمل طور پر کووڈ 19کے خلاف جنگ لڑنے والے فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو لگائی جارہی اور این سی او سی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی طے کردہ ترجیحات کے مطابق ویکیسن کی پہلی خوراک ہیلتھ ورکرز کو لگائی جا رہی ہے۔ملک بھر میں ایڈلٹ ویکسینیشن مراکز قائم کیے جا چکے ہیں اور ویکسینیشن کا تمام تر عمل ڈیجیٹل میکانزم سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔
ویکسینیشن کے پہلے مرحلے کے لیے پنجاب میں 189، سندھ میں 14خیبرپختونخوا میں 280، بلوچستان میں 44اور اسلام آباد میں 14ویکسینیشن سینٹر قائم کیے گئے ہیں۔اس کے علاوہ آزاد کشمیر میں 25اور گلگت بلتستان میں 16مراکز کے ذریعے ویکسینیشن کی جارہی ہے۔این سی او سی پوری ویکسینیشن مہم کے دوران نرو سینٹر کے طور پر کام کررہاہے ۔ اس کیلئے صوبے، اضلاع اور تحصیل کی سطح پر بھی کور سینٹرز قائم کئے گئے ہیں۔
پہلے مرحلے میں تمام شہری بمعہ فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز ایس ایم ایس کے ذریعے 1166 پر اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر بھیجیں گے یا رجسٹریشن کے لیے نیشنل امیونائزیشن منیجمنٹ سسٹم کی ویب سائٹ کا استعمال کریں گے۔دوسرے مرحلے میںتصدیق کے بعد موجودہ پتے کی بنیاد پر نامزد آڈلٹ ویکسین سینٹر اور پن کوڈ شہریوں کو بذریعہ ایس ایم ایس بھیجا جائے گا۔تیسرے مرحلے میں اگر نامزد اے وی سی شہریوں کی موجودہ تحصیل سے باہر ہے تو شہری ایس ایم ایس موصول ہونے کے 5دن کے اندر این آئی ایم ایس کی ویب پورٹل یا 1166ہیلپ لائن پر کال کرکے اپنا اے وی سی تبدیل کرسکتا ہے۔چوتھے مرحلے میںمقررہ ویکسین سینٹر پر ویکسین کی دستیابی پر اپائنمنٹ کی تاریخ سے قبل شہریوں کو ایس ایم ایس بھیجا جائے گا۔پانچویں مرحلے میں کامیاب رجسٹریشن کے بعد شہری اپنا شناختی کارڈ اور موصول شدہ پن کوڈ(لازمی)کے ساتھ مقررہ تاریخ اور وقت پر اے وی سی آئیں گے۔چھٹے مرحلے میں اے وی سی میں ویکسین اسٹاف شناختی کارڈ اور پن کوڈ کی تصدیق کرے گا۔ساتویں مرحلے میں تصدیق کے بعد شہریوں کو ویکسین لگائی جائے گی اور انتظامیہ این آئی ایم ایس میں تفصیلات کا اندراج کرے گی اور شہری کو ایس ایم ایس کے ذریعے تصدیقی پیغام بھیجا جائے گا ۔ ویکسین لگائے جانے کے بعد 30 منٹ تک شہری کو نگرانی کے لیے وہاں موجود رہنا ہوگا۔آٹھویں اور آخری مرحلے میںاس طریقہ کار سے وفاقی، صوبائی اور ضلعی محکمہ صحت کیلئے ریئل ٹائم ڈیش بوڈ خود کار طریقے سے تیار ہوگا۔
اس سے قبل چینی کمپنی کین سائنو نے پاکستان سمیت 5ممالک میں اپنا کلینکل ٹرائل مکمل کیااور بین الاقوامی ڈیولمپنٹ نگراں کمیٹی (آئی ڈی ایم سی)کو اس کے افادیت کی شرح کے باضابطہ اعلان کے لیے بھیج دیا گیا،پاکستان میں کین سائنو کے فیز 3کلینکل ٹرائل کے لیے قومی معاون ڈاکٹر حسن عباس ظہیر نے بتایا پاکستان، میکسیکو، ارجنٹینا، چلی اور روس میں 40ہزار رضاکاروں کو ویکسین دی گئی۔ڈاکٹر حسن ظہیر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریبا 18ہزار رضاکاروں کو ویکسین لگائی گئی،لیکن چونکہ ابھی ہم ڈیٹا کا اعلان نہیں کرسکتے لہذا اسے آئی ڈی ایم سی کو بھیجا گیا ہے۔جس کے بعد نتائج سامنے لائے جائیں گے، بعد ازاں یہ نتائج ڈریپ کے ساتھ شیئر کیے جائیں گے،انہوں نے کہا کہ صرف 5فیصد رضا کاروں کو ہلکا سا بخار ہوا لیکن کسی موت یا ہسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع ملی۔انہوں نے کہا کہ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ویکسین سنگل خوراک ہے اور اسے ایک مرتبہ ہی لگانا ہوگا، تاہم ایک اور چینی کمپنی  نے کلینکل ٹرائل کے لیے ہم سے رابطہ کیا ہے جو ڈریپ کی منظوری کے بعد شروع ہوں گے۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بڑی پیش رفت ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا جہاں کووڈ 19ویکسین کا اسٹاک ہے۔ قومی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرمیجر جنرل عامر اکرام ویکسین کے ضروری لاجسٹکس کے انتظامات کے لیے فوکل پرسن ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد جہاں کروڑوں اور اموات لاکھوں میں ہے وہیں پاکستان میں بھی اس وبا سے اب تک لاکھوں لوگ متاثر اور ہزاروں انتقال کرچکے ہیں۔ہلاکتوں کے بڑھتے واقعات کے بعد ویکسین کو تیار کرنے کے لیے بیجنگ انسٹیٹوٹ کے محققین نے چین کے ہسپتالوں میں زیرعلاج مریضوں سے کورونا وائرس کی 3اقسام کو حاصل کیا تھا اور اس میں سے اس قسم کا انتخاب کیا جو بندر کے گردوں کے خلیات میں بہت تیزی سے اپنی تعداد بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔ویکسین کے لیے اس وائرس کی ناکارہ قسم کا استعمال کیا گیا ہے جو بیمار نہیں کرتی بلکہ مدافعتی نظام کو تقویت دینے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ویکسینز کی تیاری کے لیے غیرفعال وائرسز کا استعمال عرصے سے کیا جارہا ہے، 1950کی دہائی میں اسی طریقے سے پولیو ویکسین تیار ہوئی تھی اور ہیپاٹائٹس اے اور دیگر ویکسینز بھی اس طریقہ کار کے تحت تیار کی گئیں۔چونکہ اس ویکسین میں موجود کورونا وائرسز ناکارہ ہوتے ہیں، تو ان کو جسم میں داخل کرنے سے کووڈ 19 کا سامنا نہیں ہوتا۔مگر جسم کے اندر جانے کے بعد ان میں سے کچھ غیرفعال وائرسز کو ایک قسم کے مدافعتی خلیات نگل لیتے ہیں جن کو اینٹی جین سیل بھی کہا جاتا ہے۔یہ خلیات کورونا وائرس کے ٹکڑے کردیتے ہیں اور اس کے کچھ ذرات اپنی سطح پر چھوڑ دیتے ہیں،جس کے بعد مددگار ٹی سیل ان ذرات کو شناخت کرتا ہے۔اور متحرک ہو دیگر مدافعتی خلیات کو اکٹھا کرکے ویکسین کے لیے ردعمل کو تیار کر دیتا ہے۔اس طرح ویکسین کے استعمال کے بعد مدافعتی نظام زندہ کورونا وائرسز سے ہونے والی بیماری کے خلاف ردعمل ظاہر کرتا ہے، بی سیلز اینٹی باڈیز بناتے ہیں جو حملہ آور وائرس سے چپک جاتی ہیں۔اینٹی باڈیز اسپائیک پروٹین کو ہدف بناکر وائرس کو خلیات میں داخلے سے روکتی ہیں، دیگر اقسام کی اینٹی باڈیز ممکنہ طور پر وائرس کو دیگر طریقوں سے بلاک کرسکتی ہیں۔اس ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ اس کے استعمال سے لوگوں کو کووڈ 19 کے خلاف تحفظ ملتا ہے، تاہم یہ ابھی کہنا  قبل از وقت ہو گا کہ یہ تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتا ہے۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مزیدخبریں