لیہ تونسہ پل کو مکمل ہوئے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا مگر ابھی تک دونوں اطرف کے شہریوں کیلئے کسی کام کی نہیں کیونکہ اس کے ہر دو جانب سڑکوں کی تعمیر ابھی تک شروع نہیں ہو سکی۔ عوام اچھے دنوں کی آس لگائے سڑک کی تعمیر شروع ہونے کی راہ تک رہے ہیں۔ لیہ تونسہ پل کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے 2017 میں اپنے لیہ کے دورہ کے موقع پر ایک بڑے جلسہ عام میں رکھا تھا۔ اس کے بعد تیزی سے پل کی تعمیر شروع ہو گئی تھی۔ تاہم اس سے قبل نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں اور پھر 2012 میں شہباز شریف کے وزارت اعلیٰ کے دور میں اس پل پر کام شروع کیا گیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ کچھ ہی دنوں بعد ترک کر دیا گیا تھا جبکہ میاں شہباز شریف کے دور میں کام کا آغاز بھی کر دیا گیا تھا۔ مگر شومئی قسمت جب میٹرو بس لاہور کو فنڈز کی ضرورت پڑی تو فنڈز لاہور منتقل کر کے کام بند کر دیا گیا تھا۔ مگر اس بار قسمت نے یاوری کی اور اس بار نہ صرف کام شروع ہوا بلکہ پل مکمل بھی ہو گیا۔ مگر اس خطے کی عوام کی بدقسمتی کہ حکومت تبدیل ہو چکی ہے اور اسے ویژن کی تبدیلی کہیں یا نااہلی کی انتہا کہ ایک منصوبے پر عوام کے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں مگر اس کے ثمرات عوام تک منتقل کرنے کیلئے روڈز کی تعمیر شروع نہیں کی جا رہی۔ 1.55 کلومیٹر طویل پل کے شرقی کنارے 8 کلومیٹر جبکہ غربی کنارے 14 کلومیٹر روڈ اور پل کی حفاظت کیلئے حفاظتی بندوں کی تعمیر دوسرے مرحلے میں ہونا تھی۔یوں پہلا مرحلہ مکمل ہوئے 6 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر دوسرا مرحلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ پہلے مرحلے کی تکمیل سے قبل ہی فنڈز مختص کرکے ٹینڈرز جاری کر کے پہلے مرحلے کے اختتام سے پہلے ہی سڑکوں کی تعمیر شروع کرا دی جاتی اور اب تک سڑکوں کو بھی مکمل ہو جانا چاہئے تھا۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تھا تو کم از کم پل کی حفاظت کیلئے مجوزہ سپربندوںکی تعمیر مکمل ہو چکی ہوتی اور دریائے سندھ کے پانی کو پل کے نیچے سے گزارنے کا عمل بھی مکمل کر دیا جاتا تاکہ اہل علاقہ سڑکیں نہ ہونے کے باوجود اس پل سے کسی نہ کسی حد تک فائدہ تو اٹھا سکتے۔یوں کشتیوں میں گھنٹوں خوار ہونے کی بجائے پل کا استعمال کر کے آسانی سے دوسری جانب آ جا سکتے۔اربوں روپے کے اس منصوبے سے عوام ابھی تک کوئی فائدہ اٹھانے میں ناکام ہیں ۔ ہاں البتہ دونوں اطراف کے عوام کشتیوں پر سفر کر کے پل تک پہنچتے ہیں فوٹو سیشن کرتے ہیں اور دل بہلا کر واپس آ جاتے ہیں۔ یوں انہوں نے اس پل کو ذرائع آمدورفت کی بجائے پکنک پوائنٹ بنا لیا ہے۔ چلو یہ بھی اچھا ہے کہ مہنگائی کے مارے عوام کیلئے یہ خوشی بھی کچھ کم نہیں کہ وہ اپنے غم کچھ دیر کیلئے بھول جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت سے میری گزارش ہو گی کہ اگر ان کے پاس سڑک کی تعمیر کیلئے فنڈز نہیں ہیں تو وہ اسے باقاعدہ طور پر پکنک پوائنٹ بنانے کا اعلان کر دے اور عوام کو اجازت دے دے تاکہ وہ یہاں رستوران اور دیگر سٹالز لگا کر عوام کیلئے مزید دلچسپی کا سامان کر سکیں اور کچھ بے روزگار افراد کو روزی روٹی بھی میسر آسکے۔ تفنن طبع سے ہٹ کر آخر میں میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ حکومت پاکستان اور این ایچ اے کے اعلیٰ حکام اپنی توجہ اس جانب بھی مبذول کریں اور عوام کی بھلائی کے اس منصوبے کو سیاست کی نظر نہ ہو نے دیں اور جلد از جلد مکمل کر کے عوام کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیں۔ باقی اگر موجودہ حکومت پوائنٹ سکورنگ کیلئے اس منصوبے کو تاخیر کا شکار کرنا چہاہتی تو وہ جان لیں کہ اب عوام نوے کی دہائی والی ہرگز نہیں اب کافی حد تک بالغ العلمی کے باعث سب کچھ سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اگر آپ اسے تاخیر کا شکار کریں گے تو اس منصوبے کی تکمیل سے جو کچھ سیاسی فائدہ ملنے کے امکان ہیں وہ بھی جاتے رہیں گے اور غیر ضروری تاخٰر کے باعث جو غم وغصہ عوام میں آپ کیلئے پیدا ہو رہا ہے وہ مزید دوچند ہوتا جائے گا۔
لیہ تونسہ پل تکمیل میں تاخیرکیوں؟
Feb 08, 2021