بھارتی وزیر اعظم کی رسوائی 

Feb 08, 2021

ڈیڑھ صدی قبل ایک تقریر میں ادا کیے گئے ابراہیم لنٹن کے یہ الفاظ جمہوریت کی تاریخ بن گئے ’’عوام کی حکومت عوام کیلئے اور عوام کے ذریعے ‘‘لیکن پھر عوام کی بجائے فسطائیت اور چھوٹے لوگوں کا راج ہوا جن کے بارے میں حبیب جالب نے ایک لقب استعمال کیاتھا آج یہ حال ہے کہ پڑوسی ملک بھارت میں کسانوں پر ڈنڈہ بردار فسطائی حاوی ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔یہ وہ ملک ہے جوخود کو دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے لیکن اب یہاں پر عوام کی حکومت کی بجائے کارپوریٹ سرمایہ کاروں کے چندے پر پلنے والے ایک ایسے چھوٹے آدمی کی حکومت ہے جو عوام کو کچھ دینے سے قاصر ہے یا اِس کی انا آڑے آر ہی ہے ۔ دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھارتی کسان آج بھی دہلی کے گرد احتجاج کررہے ہیں ۔ہفتے کو انہوں نے بھوک ہڑتا ل کی ۔ انتظامیہ نے اس علاقے سے انٹرنیٹ بند کردیا تاکہ کسانوں کی آواز دنیا تک نہ پہنچ سکے ۔ مودی حکومت کی جانب سے کل جماعتی اجلاس کا ڈھونگ کیا گیا جس کے اختتام پر یہ بات سامنے آئی کہ بھارتی وزیر اعظم کا رپوریٹ مافیا کی حمایت سے ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں،بھارتی کسان حکومت کے متعارف کرائے تین نئے زرعی قوانی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ ان نئے قوانین کے تحت نجی خریدار بھی مستقبل میں فروخت کیلئے ضروری اجناس ذخیرہ کرسکتے ہیں جو کہ اِس سے پہلے اس حکومت سے منظور شدہ ایجنٹ ہی کرسکتے تھے ۔ یہ ممکنہ نجی خریدار سپر مارکیٹس اور آن لائن سودا سلف کمپنیاں ہیں ۔ جو چاہتی ہیں کہ کسان انہیں حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر اجناس فروخت نہ کریں بلکہ ان کمپنیوں کی مقرر کردہ قیمتوں پر اپنا سارا مال دے جائیں ۔ اس وقت زیادہ تر انڈین کسان اپنی پیداوار کا بڑا حصّہ حکومت کے زیر انتظام تھوک منڈیوں میں امدادی قیمت پر فروخت کرتے ہیں ۔ ان تھوک منڈیوں کی موجودگی سے نہ صرف  قیمتوں میں استحکام رہتا ہے بلکہ وہ یہاں کہ آڑھتی سے قرضہ بھی لے سکتے ہیں لیکن کارپوریٹ مافیا چاہتا ہے کہ یہ منڈیاں ختم ہوجائیں تاکہ وہ اپنی مرضی کے نرخوں پر کسانوں سے اجناس سستے داموں حاصل کرسکیں ۔ کسانوں کے مظاہروں کے بعد مودی حکومت نے جنوری کے شروع میں کہا تھا کہ وہ ان قوانین کا نفاذ ڈیڑھ برس کیلئے ملتوی کرنے کو تیار ہے ۔ کسان کہتے ہیں کہ نئے قوانین مکمل طور پر ختم کیے جائیں اور آئندہ ان کا نام نہ لیا جائے ۔ مودی کی مشکل یہ ہے کہ وہ کارپوریٹ مافیا سے چندہ لے کر وزیرا عظم بنے ہیں ۔ بڑی کمپنیوں کے مفادات کا دفاع ان کی مجبوری بن چکا ہے ۔لہٰذا ہفتے کو مودی نے کل جماعتی اجلاس کے دوران ایک بار پھر ہٹ دھرمی پر مبنی موقف اپنایا اور کہا کہ وہ 22-23جنوری کو وزیرزراعت نریند ر سنگھ ٹومار کی جانب سے کسانوں کی تنظیموں کو بھیجی گئی تجاویز پر بات کرنے کیلئے تیار ہیں ۔ یہ وہی تجاویز ہیں جو کسان پہلے ہی مستر دکرچکے ہیں ان میں نئے قوانین 18ماہ کیلئے موخر کرنے کی بات کی گئی ہے ختم کرنے کی نہیں ۔ عوام کے بجائے کارپوریٹ اداروں کے نمائندے نریندر مودی نے کہا اگر آپ بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ’’ وزیرزراعت‘‘فون پر دستیاب ہیں ۔ کسانوں کے سامنے جو تجاویز پیش کی گئیں تھیں وہ اب بھی بہترتجاویز ہیں ۔ حکومت اب بھی وزیر زراعت کی پیشکش کے حوالے سے بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے ۔ دوسرے لفظوں میں نریندر مودی نے بتاد یا کہ کسانوں کو دینے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ۔ یہ ہے اکیسویں صدی کی جمہوریت یہاں کارپوریشنیں حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہو چکی ہیں ۔ مودی نے اس کل جماعتی اجلاس میں بھی صرف اس وجہ سے شرکت کی کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ میں صدر کا خطاب سننے سے انکار کردیا تھا ۔ دوسری جانب بھارتی پنجاب کا کسان بھی لڑنے پر تلا ہے ۔ ہفتے کو بھی بھارت کے دیگر حصّوں سے کسانوں کی بڑی تعداد دہلی کے قریب غازی پور پہنچی مغربی اترپردیش کے علاوہ دہلی سے بھی لوگ یہاں جمع ہورہے ہیں ۔ 26جنوری کو کسان رہنما راکیش اکائیت کو دہلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد نوٹس بھیجا گیا تھا اور ان کے گرفتار کیے جانے کے بارے میں قیاس آرائی ہورہی تھی پھر 28جنوری کی رات کو ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعدکسانوں نے بڑی تعداد میں غازی پور پہنچنا شروع کردیا ۔ اب تک انڈین حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں ۔ ایک کسان رہنما ڈرنام سنگھ نے پوری صورتحال اختصار کے ساتھ یوں بیان کی ہے اگر آپ نے بڑی کاروباریوں کو قیمتوں کا تعین کرنے اور اجناس خریدنے کی اجازت دی تو ہم اپنی زمین ، اپنی آمدنی کھودیں گے ۔ بھارتی کسانوں کا یہ خوف بے جا نہیں ۔ جب ملک کا وزیرا عظم مافیا کا نمائندہ ہو اور ان کے مفادات کیلئے ہر حد تک جانے کیلئے تُل جائے تو عوام کو حقو ق کیلئے سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے ۔ نریندر مودی نے ثابت کیا ہے کہ اتائیت کو بطور ہتھکنڈہ استعمال کرنے والے نا اہل حکمران ملک کا بیڑہ غرق اور جمہوریت کا نام بدنا م کردیتے ہیں ۔ آج بھارتی جمہوریت دنیا بھر میں رُسوا ہے ۔ 

مزیدخبریں