آسانیاں کون بانٹے گا؟

تبدیلی کا خواب کیونکر پورا ہوگا؟ وزیراعظم کو عوام کے ہر مشکل وقت کا احساس ہے۔ لیکن انہوں نے قوم سے قربانی کا مطالبہ کیا اور امید دلائی کہ سب مل کر قربانی دیں تو مقصد حاصل ہوتا ہے۔ ایک دم سب ٹھیک نہیں ہوتا۔ صرف طلسماتی کہانیوں میں ہو سکتا ہے جبکہ پچاس سال میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اسکی اصلاح کیلئے قوم کو صبر کرنا پڑیگا۔ عمران خان کی نظر میں فرار ہونے والوں میں استعفے کی جرأت نہیں تاہم آج ہی استعفیٰ دے دونگا‘  ’’نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘ والی بات ہے۔ کبھی کسی چور ڈاکو نے لوٹا ہوا مال ازخود واپس کیا ہے۔ دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے اپوزیشن رہنماء لوٹا پیشہ واپس نہیں کرینگے۔ شہبازشریف کی تو ایک ہی گردان ہے کہ ان پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہو سکتی۔ ملک کا دفتری نظام کلرک بادشاہوں کے ہاتھوں میں چل رہا ہے۔ افسروں کی سیڑھیاں چڑھ کر فائل منزلِ مراد کو پہنچتی ہے۔ زبانی دعوئوں سے قطع نظر ہمارا ملکی نظام ابھی اسی سٹیٹس کو پر برقرار ہے۔ ترقیاتی منصوبوں میں التوا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ ٹھیکیدار گلیاں سڑکیں کھود کر بھاگ جاتے ہیں جیسے قصائی عید کے روز کئی بکرے ذبح کرکے لوگوں کو انتظار کی سولی پر لٹکا جاتے ہیں اور دیر تک گوشت بنانے نہیں آتے۔ گلیوں سڑکوں پر مرمت کا کام شروع ہونے میں تعطیل کا شکار ہو جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ سرکاری پیسے کے ضیاع کی داستانیں اور بروقت اور درست فیصلے کرنے میں ناکامی ہمارا مستقل مسئلہ ہے۔ 
پی ڈی ایم کی استعفیٰ پولیٹکس کی ناکامی بارے کہنا قبل ازوقت ہے۔ مریم نواز نے بس تھوڑا صبر اور ’’کے جواب میں کہا‘‘ تھوڑا صبر تو کرو بتاتے ہیں۔ استعفے کیا ہوتے ہیں‘ شہبازشریف کے بقول نیب قیامت تک میرے خلاف کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔ سینٹ الیکشن سے پہلے سندھ میں پی ٹی آئی ارکان توڑنے کی کوششیں جاری ہیں۔ پیپلزپارٹی کراچی میں تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ دس سے بارہ ناراض پی ٹی آئی ارکان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ پچھلی بار ایم کیو ایم کے ارکان کو محض پندرہ سے بیس لاکھ کے عوض خرید لیا تھا۔ نمبرگیم کے حساب سے پی پی کی صوبے میں چھ سیٹیں بنتی ہیں۔ دو اضافی نشستیں لینا چاہتی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ ماننا ہے کہ اگر حکومت نیک نیتی سے سیاسی اتفاق رائے سے ترمیم لاتی تو اس پر بات ہو سکتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ سے متوقع فیصلہ نہ ملنے کے خوف کے بعد حکومت نے آئینی ترمیم لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی۔ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے الزامات تاریخ بہت پرانی ہے۔ پی ٹی آئی سمیت کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے جس پر سینٹ انتخابات میں خریدو فروخت کے الزامات نہ لگے ہوں۔ اب بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر الزام عائد کررہی ہیں کہ وہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کیلئے منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ حکومت صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیتی تو سپریم کورٹ اپنی رائے دیگی۔ آئین میں سینٹ انتخابات کا ذکر ہے۔ طریقہ کار نہیں ہارس ٹریڈنگ روکنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ 
تبدیلی آسانیاں بانٹنے کا نام ہے۔ بزرگ شہریوں بالخصوص پنشن یافتگان کیلئے مشکلات پیدا کرنا کونسی انسانی ہمدردی ہے۔ سارے پنشنرز فراڈیئے نہیں ہیں۔ فوت شدہ پنشنرز کے نام پر پنشن لینے اور دینے والے دونوں مجرم ہیں۔ یعنی رشوت لینے اور دینے والا برابر ہیں۔ وفاقی حکومت نے پنشنرز کے زندہ ہونے اور میرٹ پر پورا اترنے کو چیک کرنے کیلئے رولز میں ترامیم کر دی ہیں ہر سال پنشنرز کو مارچ اور اکتوبر میں متعلقہ بنک سے بائیومیٹرک کروانا لازمی ہوگا۔ عمر رسیدہ لوگوں کے انگلیوں کے نشان مدھم پڑ جاتے ہیں اور بائیو میٹرک پر نہیں آتے۔ جن کے فنگر پرنٹ مٹ چکے ہونگے‘ انہیں مجاز افسر گریڈ 17 یا زیادہ سے تصدیقی سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ بیمار بوڑھے مجاز افسر کو کہاں ڈھونڈیں‘ بوڑھوں کو ایسی مشکل میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ کسی زندہ انسان کو بطور گواہ لا سکتے ہیں کہ یہ زندہ اور پنشنرز ہے۔ گھوسٹ پنشنرز کا وجود سرکاری عمال کی نالائقی ہے۔ اسی طرح دوسری شادی کرنیوالوں کو بھی کوئی گواہ لانے کی شرط آسان ہے۔ گواہ اپنے شناختی کارڈ کی کاپی جمع کرادے کہ پنشنر نے دوسری شادی نہیں کی اور وہ بقید حیات ہے۔ بزرگ پنشنروں کی مجاز افسروں کے پیچھے دوڑیں نہ لگوائیں‘ ہر شخص کے محلے دار اسکے شب و روز کے گواہ ہوتے ہیں۔ عمران خان دیکھیں کہ تبدیلی عوام کو مشکلوں میں ڈالنا ہے یا انہیں مشکلوں سے نکالنا ہے۔ گریڈ 22 کے افسروں کو بھی ایک دن ریٹائر ہونا ہے۔ 
اوپن بیلٹ کی مخالفت کا مطلب ارکان کی خرید و فروخت جاری ہے۔ سینٹ الیکشن پر عدالتی رائے حتمی نہیں‘ حکومت کو قانون سازی کرنا ہوگی۔ رکن اسمبلی یہ کیوں چاہتا ہے کہ معلوم نہ ہو اس نے ووٹ کسے دیا ہے۔ سینٹ انتخابات کیلئے اتنا شور کیوں؟ قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پیش ہونے پر ہنگامہ اپوزیشن اور حکومتی ارکان میں جھڑپ‘ ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ گالی گلوچ‘ ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔ سیاسی جماعتوں کو سینٹ کے ٹکٹوں کیلئے کس کس نے درخواست دی۔ نام سامنے آنے چاہئیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ٹکٹ میرٹ پر ملے یا ٹکٹ بکے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے ہو۔ سینٹ کا حصہ بننے کیلئے چند کروڑ روپے لگا دینا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر سبز نمبر پلیٹیں لگوانا‘ سرکاری پروٹوکول انجوائے کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ سرکاری گاڑی پر جھنڈا لہراتا ہو تو چوراہے پر سلیوٹ ہوتا ہے۔ سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خریدو فروخت مک مکا معمول رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا بیان ’’مقتدرہ نہیں حکومت کیخلاف ہیں‘‘ انکی طے شدہ حکمت عملی سے انحراف ہے۔ مولانا اور ن لیگ لانگ مارچ پر مصر ہیں۔ سپریم کورٹ نے ارکان اسمبلی کا ترقیاتی فنڈز کا نوٹس لیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا وزیراعظم کا ترقیاتی فنڈز دینا‘ آئین قانون‘ عدالتی فیصلوں کے مطابق ہے؟ اگر ترقیاتی فنڈز کا اجراء آئین اور قانون کے مطابق ہوا تو ٹھیک ورنہ کارروائی کی جائیگی۔ مہنگائی پر وزیراعظم کا مارکیٹ کمیٹیاں ختم کرنے کا ایکشن قابل تحسین ہے۔ کمیٹیاں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں کم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تاجروں سے مل کر پیسے بناتی ہیں۔ ہر ریڑھی والا اور دکاندار اپنی مرضی سے قیمت لیتا ہے۔ مارکیٹ کمیٹیوں کا کردار محض تماشائی کا رہا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن