تجزیہ: محمد اکرم چودھری
سیاسی جماعتوں نے آئندہ عام انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ملاقاتیں بدلتے ہوئے سیاسی موسم کا پتہ دے رہی ہیں۔ اگر فوری طور پر یا مستقبل قریب میں کوئی تبدیلی نہیں بھی ہوتی تب بھی یہ ملاقاتیں مستقبل میں بننے والے سیاسی اتحاد یا پھر سیاسی تبدیلیوں اور جماعتوں کی توڑ پھوڑ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات میں اہم کردار ادا کریں گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی اعلیٰ قیادت کے مابین ملاقات ہے۔ چند ماہ پیچھے چلے جائیں تو دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا ایک دوسرے پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے دونوں کو ایک مرتبہ پھر اکٹھا کر دیا ہے۔ یہی ہماری سیاست کی روایت ہے۔ سیاسی جماعتیں ذاتی اختلافات اور ذاتی مفادات کی وجہ سے علیحدہ ہوتی ہیں اور مشترکہ مفادات کے لیے تمام تر سخت بیانات اور ذاتی نوعیت کے الزامات کو بھلا کر ایک میز پر نظر آتی ہیں۔ یاد رہے کہ نہ تو اتحاد ملک و قوم کے مفاد کی خاطر ہوتا ہے اور نہ ہی سیاسی اتحاد کے خاتمے کی وجہ ملک و قوم کا مفاد ہوتا ہے۔ پاکستان میں نظریاتی سیاست کے نظریہ ضرورت کی سیاست کی جاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے بڑوں کی ملاقات اور اس بیٹھک کے بعد رانا ثناء اللہ کا بیان ہے۔ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل ہیں لہٰذا پیپلزپارٹی کے ساتھ اس طرح فیصلہ نہیں کر سکتے۔ حالانکہ اس ملاقات میں بہت مختلف باتیں ہوئی ہیں لیکن رانا ثناء اللہ نے الگ کہانی بیان کر دی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہی ہے کہ پی ڈی ایم میں اگر پیپلز پارٹی نہ ہو تو موجودہ حالات میں اس پلیٹ فارم پر کسی بھی مزاحمتی تحریک کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی ملاقاتوں کے موسم میں مولانا فضل الرحمن بھی متحرک ہیں۔ مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کی یہ ملاقاتیں سیاسی کارکنوں کو بھی متحرک کرتی ہیں لیکن ووٹر یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوتا ہے کہ وہ کب تک اعلیٰ قیادت کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے قربانی دیتا رہے گا۔