عمران خان صاحب کی قیادت میں اگست 2018ء سے قائم حکومتی بندوبست کے استحکام کو یقینی بنانے والی قوتیں اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ کارکردگی سے مطمئن نہیں تھیں۔انہیں شدت سے احساس ہونا شروع ہوگیا کہ آئی ایم ایف سے رجوع کئے بغیر گزارہ نہیں۔ ان کے متبادل کی تلاش شروع ہوئی تو شوکت ترین اولین ترجیح قرار پائے۔موصوف کی وزیر اعظم سے بنی گالہ میں خفیہ رکھی ملاقاتوں کا اہتمام ہوا۔ترین صاحب مشورے دینے کو آمادہ تھے۔وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے سے مگر کتراتے رہے۔اس ضمن میں اپنے خلاف احتساب بیورو کی جانب سے چلائے مقدمات کا حوالہ دیا۔بچوں کی شادیوں کی وجہ سے قائم ہوئی رشتہ داریاں بھی ان کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ان کے انکار کے بعد ہی ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سرپر ہما بٹھایا گیا۔
وزارت خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی شیخ صاحب نے آئی ایم ایف کے ساتھ تین سالہ معاہدہ کیا۔اس معاہدے کی بدولت مہنگائی کی ناقابل برداشت لہر نمودار ہوئی۔تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین پارلیمان اس کی وجہ سے اپنے حلقوں کا رخ کرنے سے گھبراتے رہے۔ ان میں سے چند نے اکتاکر بالآخر حفیظ شیخ کے بجائے یوسف رضا گیلانی کی حمایت میں ووٹ ڈال کر نہیں سینٹ بھجوادیا۔حفیظ شیخ کو مذکورہ شکست کی وجہ سے فارغ کرنا پڑا۔ شوکت ترین کے پاس بھی اس کے بعد انکار کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
مشیر خزانہ کا منصب سنبھالتے ہی ترین صاحب نے پے در پے چند ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے ہمارے معاشی جمود کا واحد ذمہ دار حفیظ شیخ کو ٹھہرایا۔ مصر رہے کہ آئی ایم ایف کے تشخیص کردہ نسخے پر عمل جاری رہا تو وطن عزیز میں کاروبارچلانا ناممکن ہوجائے گا۔رواں سال کا بجٹ تیارکرتے اور اسے قومی اسمبلی سے منظوری کے لئے پیش کرتے ہوئے بھی ترین صاحب اپنے اس دعویٰ پر قائم سنائی دئیے۔ بارہا اعلان کرتے رہے کہ بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ بازار میں تیزی لانے کے لئے انہوں نے کئی دھندوں کے لئے ٹیکس میں خوشگوار رعایتوں کا اعلان بھی کیا۔
چند ہی ماہ بعد مگر شوکت ترین کو ’’آنے والی تھاں‘‘ پر لوٹنا پڑا ہے۔آئی ایم ایف کے اصرار پر روزمرہّ ضرورت کی تقریباََ ہر شے پر 17فی صد سیلز ٹیکس لگانا پڑا ہے۔اس کے علاوہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو کامل خودمختاری بھی فراہم کردی گئی ہے۔ایسے اہم اقدامات کے باوجود آئی ایم ایف اب بھی مطمئن نظر نہیں آرہا۔پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط فراہم کرتے ہوئے آئی ایم ایف نے پاکستان کی معیشت کا جو تجزیہ کیا ہے اسے خفیہ نہیں رکھا۔یہ تجزیہ اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔
انگریزی زبان پر میری گرفت قابل رشک نہیں۔آئی ایم ایف کا تجزیہ ویسے بھی بھاری بھر کم اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے لاطینی میں لکھا محسوس ہوتا ہے۔ تین سے زائد مرتبہ اسے غور سے پڑھنے کے بعد مگر یہ بات جان لی ہے کہ آئی ایم ایف کا جاری کردہ تجزیہ ایک حوالے سے ہماری معیشت کا معروضی جائزہ نہیں بلکہ شوکت ترین کے خلاف لکھی چارج شیٹ ہے۔
علم معاشیات سے قطعاََ نابلد ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کے تجزیہ کو غور سے پڑھتے ہوئے یہ دریافت کرنے کے قابل ہوا کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی دانست میں شوکت ترین صاحب نے رواں مالی سال کا بجٹ تیار کرتے ہوئے ایسے کئی وعدوں سے روگردانی کی جو حفیظ شیخ نے تحریری صورت کئے تھے۔ آئی ایم ایف درگزر کرنے کو مگر آمادہ نہیں ہوا۔ہمیں ہر صورت اس معاہدہ کی ہر شق پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہوگا جو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بھرپور معاونت سے 2019ء میں تیار ہوا تھا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرتے ہوئے عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ ہماری معیشت کا جو تجزیہ منظر عام پر لایا ہے اس پر ہماری ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب پر چھائے ذہن سازوں نے کماحقہ توجہ نہیں دی۔میرے ایک نوجوان ساتھی شہباز رانا ہی اس ضمن میں توجہ مرکوز کرتے نظر آئے۔سیاست اور امور خارجہ کا طالب علم ہوتے ہوئے میں البتہ معاشی گورکھ دھندے میں گم ہوجانے کے بجائے ایک اور پہلو پر غور کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں۔
عمران حکومت کے استحکام کو یقینی بنانے والی قوتیں شوکت ترین صاحب سے کسی ٹھوس وجہ کے بغیر متاثر نہیں ہوئی ہوں گی۔ ترین صاحب کے پاس یقینا کوئی ’’گیدڑ سنگھی‘‘ ہے جس کی وجہ سے پنجاب کے متحرک وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شہباز شریف صاحب بھی انہیں کئی پالیسی ساز اجلاسوں میں بہت چائوسے مدعو کیا کرتے تھے۔ بسااوقات ان کی رائے سرکاری افسروں کی اجتماعی رائے کے مقابلے میں حتمی قرار پاتی ۔
ترین صاحب کے پاس موجود ’’گیدڑسنگھی‘‘ کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہوں کہ وزیر خزانہ بھولپن کی بدولت اس گمان میں مبتلا رہے کہ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ انہیں حفیظ شیخ صاحب کی جانب سے طے کئے معاہدے سے روگردانی کی اجازت دے گا۔ بارہا اس کالم میں عرض گزارنے کی کوشش کی ہے کہ آئی ایم ایف فقط ایک بینک نہیں جو محض بینکاری کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔یہ ’’چورن‘‘ جناتی انگریزی میں اخبارات کے لئے معاشی موضوعات پر کالم لکھنے والے ہی فروخت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کی اکثریت نام نہاد ’’آزاد‘‘ مگر حکومت اور عالمی اداروں کی فنڈنگ سے چلنے والے ’’تھنک ٹینکس‘‘کے لئے کام کرتی ہے۔اس کے علاوہ ایک اور گروہ بھی ہے جو غیر ملکی اداروں کے لئے ’’تجزیے‘‘ وغیرہ لکھ کر ڈالر کماتا ہے۔جناتی زبان میں لکھنے والے یہ ’’دانشور‘‘ حکومت کی معاونت کے لئے ہمیں گمراہ کرنے کو ہمہ وقت بے قرار رہتے ہیں۔کبھی اس حقیقت کو برملا تسلیم نہیں کرتے کہ آئی ایم ایف فقط ایک بینک ہی نہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اہم ترین ہتھیار بھی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک چند معاملات پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش کریں تو اس کے ذریعے ہمیں ’’سیدھی راہ‘‘ پر لوٹنے کو مجبور کیا جاتا ہے۔
اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس شبے میں مبتلا ہوں کہ شوکت ترین صاحب کو یہ گماں لاحق رہا ہوگا کہ امریکہ افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاء کے لئے ہماری جانب سے فراہم کردہ ’’تعاون‘‘ کو ذہن میں ر کھتے ہوئے آئی ایم ایف کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کو مائل کرے گا۔ وہ یہ اندازہ ہی نہ لگاپائے کہ بائیڈن انتظامیہ کابل ایئرپورٹ سے نمودار ہوئے مناظر کی وجہ سے سخت ترین تنقید کی زد میں ہے۔امریکہ کی دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے کی تقریباََ ہر معاملے پر شدید مخالف ہونے کے باوجود پاکستان ہی کو امریکی افواج کے انخلاء کے دوران درپیش آئی ذلت ورسوائی کا ذمہ دار ٹھہرارہی ہیں۔
شوکت ترین صاحب نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران مذکورہ پہلو کی جانب ملفوف مگر ٹھوس انداز میں توجہ دلانے کی کوشش کی تھی۔ نہایت بے بسی سے اعتراف کیا کہ وہ جب زرداری-گیلانی حکومت کے لئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کررہے تھے تو اس کا رویہ دوستانہ اور ہمدردانہ تھا۔ اب کی بار مگر سختی برتی جارہی ہے۔قصہ مختصر امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کے ضمن میں پنجابی محاورے والی ’’گوٹ‘‘ کہیں پھنسی ہوئی ہے۔جناتی انگریز ی لکھنے والے اس کا تذکرہ نہیں کرتے۔یوٹیوب چینلوں کے ذریعے عوام کو ’’اچھی خبریں‘‘ دینے والے ’’ذہن ساز‘‘ ان کے برعکس چین کے علاوہ روس سے بڑھتی ہوئی قربت کا ڈھنڈوراپیٹتے ہوئے ہمیں مطمئن رکھنا چاہ رہے ہیں۔میرا قنوطی ذہن مگر اصرار کرنے کو مجبور ہے کہ فی الحال ہماری معیشت کی جان آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہے۔ہمارے اوپر مہنگائی کا عذاب نازل کرتے ہوئے چند اہم معاملات کی بابت ’’بدلہ‘‘ لیا جارہا ہے۔