مغلیہ عہد کے نمائندہ فیشن کی واپسی

عنبرین فاطمہ 
فیشن کسی ٹرینڈ کو فالو کرنے کا نام ہوتا ہے اگر ہم کسی ٹرینڈ کو فالو کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فیشن کر رہے ہیں اگر ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم فیشن نہیں کر رہے ہیں ۔باقی خواتین نے ہر دور میں فیشن ٹرینڈز کو اپنے حساب سے فالو ضرور کیا ہے اب زرا اس قسم کا رجحان زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب میڈیا کی وجہ سے بہت سارے معاملات آسان ہو گئے ہیں۔بات کریں آج کل کے فیشن کی تو آج 1947اور مغلیہ دور کا فیشن کافی مقبول ہے۔کچھ دہائیوں سے ہمارے فیشن میں فیوژن نظر آرہا تھا یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا فیشن گوروں کے فیشن سے کافی متاثر تھا ،مغربی فیوژن کافی چلتا رہالیکن اب جو دہائی شروع ہوئی ہے اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی ثقافت اور کلچر کی نمائندگی کرنے والا فیشن واپس آگیا ہے ۔اس کی بڑی مثا ل یہ ہے کہ مغلیہ دور میں خواتین جو ملبوسات پہنتی تھیں آج وہ دلہنیں زیب تن کررہی ہیں ۔لمبے فراق ،پشواس ،غراروں کے ساتھ لمبی قمیضیں ، مہارانی فراک بھی پہنے جا رہے ہیں اس کے علاوہ نو رتن یعنی نو رنگ کے موتیوں والے سات لڑوں کے ہار ،چوکر پٹی،گلوبند ،بڑے جھمکے ،پنجانگلے،پرانے طرز کے ٹیکے استعمال کیے جا رہے ہیں۔پچھلی کچھ دہائیوں میں جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں ہمارے فیشن پر مغربی اثر تھا تو ہمیں غرارے کے ساتھ بھی سکرٹ نما قمیض دکھائی دیتی تھی لیکن اب تو غرارے کے ساتھ بھی گھٹنوں تک لمبی قمیضیں پہنی جا رہی ہیں ۔مغلیہ فراک اور کرن و گوٹا کابہت زیادہ فیشن ہے۔پاکستان کی ثقافت اور کلچر کی نمائندگی کرنے والے فیشن کے دلدادہ لوگ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا فیشن پٹری سے اتر گیا تھا لیکن اب دوبارہ لائن پر آگیا ہے۔انار کلی ،نور جہاں ،ممتاز ،جودھا بائی جو ملبوسات پہنتی تھیں یہ اب خواتین کی دلچپسی کا مرکز ہیں ۔ترکی کا فیشن ہمارے بہت پسند کیا جا رہا ہے کہا جاتا ہے کہ ترکی کا فیشن ہی اصل میں ہمارا فیشن ہے ترکی کا فیشن واحد وہ فیشن رہا ہے جس پرگوروں کا فیشن اثر انداز نہیں ہوا ۔اس صدی کے فیشن میں چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں اور اس تبدیلی کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ ڈیزائنرز بھی مغلیہ دور کے فیشن پر ہی کام کررہے ہیں اور خواتین کے لئے مزید آسانیاں پیدا کر رہے ہیں یعنی خواتین کے پاس اتنی چوائس ہے کہ وہ اپنی پسند کے مطابق فیشن کو اپنا سکیں اور اپنی شخصیت کے مطابق فیصلہ لے سکیں کہ ان کوکیا چیز چاہیے اور کیا نہیں۔ایک چیز یاد رہے کہ انسان بنیادی طور پر جدت پسند ہے وہ چیزوں کی تبدیلی کوہمیشہ سے ہی سراہتا آیا ہے۔دور کوئی بھی ہو خواتین اپنے بجٹ سے کچھ نہ کچھ حصہ اپنی فیشن کی تسکین کو پورا کرنے کے لئے بچا لیتی ہیں اور ڈیزائنرز کا کمال ہے کہ جو چیز پہلے لاکھوں میں ملتی تھی اب وہ ان کی وجہ سے ہزاروں میں دستیاب ہے ،یعنی جو جوڑا کبھی لاکھ میں ملتا تھا اب ڈیزائنرز کی کرامات سے پچیس ہزار میں بھی دستیاب ہے ۔باقی اس چیز کو بھی سراہا جانا چاہیے کہ ہمارے فیشن ڈیزائنرز کو اگر مغربی فیشن کو اڈاپٹ کرنا پڑا تو انہوں نے مکمل طور پر مغربی فیشن کو اختیار نہیں کیا بلکہ اُس فیشن کو پاکستانی ثقافت اور کلچرکے مطابق ڈھالا اور ایسا کرنا وقتی ضرورت کے عین مطابق بھی سمجھا جانا چاہیے اس میں کوئی قباحت یا برائی نہیں ہے۔ فیشن میں تبدیلی اس لئے بھی ضروری ہوتی ہے کیونکہ انسان یکسانیت سے تنگ آجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دہائی کے بعد دوسری دہائی میں فیشن واضح طور پر کروٹ لیتا دکھائی دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ فیشن پورا کا پورا تبدیل ہوجاتا ہے اور نیا فیشن اسکی جگہ لے لیتا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ نئے فیشن سے مراد یہ ہے کہ ایسا فیشن کبھی پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا ہوا گا ،پچھلی صدی کی ہر دہائی میں الگ قسم کا فیشن رہا اور اسی طرح سے اس سے پچھلی صدی میں بھی ایسا ہی تھا ہم آج جو فیشن کررہے ہیں وہ ہماری نانی اور دادیاں کر چکی ہیں اور آج جو فیشن چل رہا ہے جسے ہم مغلیہ دور کا فیشن کہہ رہے ہیں وہ بھی ہماری نانی اور دادیوں کے دور میں ہوتا رہا ہے۔ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ قمیضوں پر فینسی بٹن بھی لگائے جا رہے ہیں اور یہ فینسی بٹن آپ کو مارکیٹ میں ہر جگہ آسانی سے دستیاب ہیں ملٹی شیڈ کے علاوہ کسی بھی رنگ میں آپ کو فینسی بٹن چاہیے تو کسی بھی لیس والی دوکان پر جائیں آپ کو وہاں ایک سے ایک بڑھ کر بٹن دکھائی دے گا۔اسی طرح سادہ کیا پرنٹڈ سوٹوں کو بھی لیسوں کے ساتھ سجایا جا رہا ہے، سادہ ،کام والی نیز ہر قسم کی لیس مارکیٹ میں دستیاب ہے آپ اگر اپنے سوٹ پر کام نہیں بھی کروانا چاہ رہیں تو خوبصورت لیس اور فینسی بٹنوں کے ساتھ اس پر خوبصورت سی ڈیزائننگ کر سکتی ہیں۔قمیضوں کی لمبائی بڑھانے کے لئے بھی لیسوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔آج کل کے فیشن ٹرینڈز  اس حوالے سے بھی دلچسپ ہیں کیونکہ1940اور 1945یعنی جب انڈو پاک ایک تھا اورہم آزادی حاصل کرنے کے قریب تھے اس وقت فاطمہ جناحؒ جو غرارہ زیب تن کیا کرتی تھیں اور کے ساتھ جو جالی کا دوپٹہ لیا کرتی تھیں اس سے اُس وقت کی خواتین خاصی متاثر تھیں یہی ٹرینڈ آج کل کی لڑکیاں بھی فالو کررہی ہیں۔جہاں تک رنگوں کی بات ہے اس وقت گہرے رنگ چل رہے ہیں اور ہلکے رنگ مکمل طور پر فیشن سے آئوٹ ہو چکے ہیں پہلے جو ہلکی سکن ٹون چل رہی تھی وہ فی الوقت ختم ہو گئی ہے ۔پاکستانی برائیڈل وئیر ویسے بھی اپنی انفرادیت کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے ہمسایہ ملک بھارت میں ہمارے برائیڈل وئیر کو بہت زیادہ کاپی کیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نفاست اور صفائی پاکستانی برائیڈل وئیر میں ہے وہ بھارت کے برائیڈل وئیر میں نہیں ہے۔اگر ہم کہیں کہ ہمارے برائیڈل وئیر میں بہت زیادہ ورائٹی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔
ملبوسات کسی بھی کے کلچر کی نمایاں عکاسی کرتے ہیں لباس دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کس ملک کی ثقافت یا کلچر ہے۔

ای پیپر دی نیشن