پاکستان کے حکومتی اور سیاسی منظر نامے پر ہر آنے والا دن حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ایک نئے منظر سے روشناس کراتا رہتا ہے۔ اپوزیشن آئے روز کسی نہ کسی حکومتی شخصیت کی رخصتی کی خبر گرم کر دیتی ہے جس سے ملکی سٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ اسی طرح حکومتی وزیر اور مشیر اپوزیشن کے غباروں سے ہوا نکالنے کا اپنا فرض ادا کرتے رہتے ہیں۔سیاسی جوتشی اور پنڈت حکومتی منظر نامے میں سردست کسی خاص تبدیلی کا عندیہ نہیں دے پا رہے تاہم دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے کے مصداق عوامی توجہ دلاؤ نوٹس دلانے کا اہتمام ضرور کیا جا رہا ہے۔ بیچاری عوام ہرپندرہ دن بعد آنے والی پٹرولیم مصنوعات کی سمری پر نظریں جمائے رکھتی ہے یا پھر بجلی اور گیس کے بلو ں سے بلبلانے میں مصروف عمل ہو جاتی ہے۔سردیوں میں گیس کی صورتحال تو کہیں ہے اور کہیں نہیں ہے والی رہی ہے۔ مہنگائی کی نہ رکنے والی لہر پر بھی حکومت ابھی تک کنٹرول نہیں کر پائی بہرحال ان سب حالات کے باوجود باقی سب خیریت ہے والی صورتحال دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم اور ان کے حامی آئی ایم ایف کی جاری کردہ امداد کے بعد دوست ملک چین کے دورے سے اچھی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں مارچ میں کوئک مارچ اور ڈبل مارچ کی مشق کر رہی ہیں یہ اور بات ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بل سازی کے وقت کئی حاضر اور غیر حاضر ارکان ایک دوسرے کو ہاتھ دکھانے اور ساتھ نبھانے کا بھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ سینیٹ کے حالیہ سیشن میں نمبروں کی گیم کے حوالے سے بھی بازگشت جاری ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں ہمیشہ سے گیلانیوں، قریشیوں اور خاکوانیوں کا عمل دخل رہا ہے جبکہ تینوں مخدوم آج کل سیاسی خبروں میں خاصے اِن ہیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی ، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے سابقہ رہنما مخدوم جاوید ہاشمی حکومتی ایوانوں کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان میں بھی خوب زور آزمائی کر رہے ہیں۔ سید یوسف رضا گیلانی نے موجودہ سیاسی صورتحال میں اپنا استعفیٰ پارٹی کو دے کر معاملے کو مزید طول دینے سے تو بچایا ہے تاہم وہ پارٹی کی خاموشی پر ضرور رنجیدہ اور حیراں ہوئے ہیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی سفارتی معاملات کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب میں پارٹی معاملات اور ترقیاتی منصوبوں کو مانیٹرنگ کرنے کا فعال کردار بھی ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی تو فی الحال سینیٹ کے ایوان میں اپنا فعال کردار ادا کریں گے البتہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی کے لیے آنیوالے الیکشن میں حالات وقت کم اور مقابلہ سخت والے درپیش ہوں گے کیونکہ شاہ محمود قریشی کے حلقے میں ان کی اپنی ہی جماعت نے صف بندی کر رکھی ہے جبکہ مخدوم جاوید ہاشمی دو کشتیوں کے سوار رہنے کے بعد سردست اب کسی اور سیاسی جماعت سے وابستگی رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تاہم انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب مخدوم رشید میں مستقل ڈیرے ڈال دیئے ہیں دیکھیں اب آنے والے الیکشن میں وہ کس کنویں میں اپنا ڈول ڈالتے ہیں یا کس جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہیں۔ تحریک انصاف میں نئی تنظیم سازی کے کچھ مثبت اثرات بھی دکھائی دینے لگے ہیں دیکھیں نئے عہدے دار آنے والے بلدیاتی انتخابات میں اپنا کیا رنگ اور اثر دکھا پائیں گے تاہم پارٹیوں میں انتخابات اور موروثی سیاست سے اجتناب ہی پاکستان کے سیاسی نظام کو مزید مضبوط اور شفاف بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزراء سید فخر امام، حسین جہانیاں گردیزی، ڈاکٹر اختر علی اور وزیر مملکت ملک محمد عامر ڈوگر قومی اور عوامی مسائل میں دلچسپی لینے کے ساتھ ساتھ اپنے حلقے میں بھی دیکھے جا رہے ہیں اور ان کی کاوشوں سے حکومتی فنڈ حلقوں پر خرچ ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ملک عامر ڈوگر نے ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ میں لفٹ کی تنصیب اور نئے آڈیو ٹوریم کی تعمیر متعدد سکولوں اور کالجوں کی اپ گریڈنگ کے لئے خصوصی گرانٹ اور فنڈز بھی دلائے ہیں موجودہ حکومت اگر باقی مدت اقتدار میں اہم عوامی مسائل پراسی طرح خصوصی توجہ دے اور مہنگائی کے جن کو قابو کر لے تو آنے والے دنوں میں اس کی مشکلات میں ضرور کمی واقع ہو سکتی ہے بصورت دیگر بعض خارجی اور دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ حکومت کو عوامی ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اقتدار کی غلام گردشوں اور حکومت کے ایوانوں میں سیاسی پھلجڑیوں اور نجومیوں کی پیش گوئیوں کے ساتھ بھی کئی کہانیاں جنم لے رہی ہوتی ہیں جن کا اندازہ لگانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی تاہم ایسے کردار ہر تبدیلی کا پس منظر یا پیش منظر ضرور ثابت ہوتے ہیں اور وقت آنے پر بقول نوشی گیلانی یہی کہتے نظر آتے ہیں :
کہیں کرتے نہیں اظہار چپ ہیں
ہمیں تو حکم ہے سرکار چپ ہیں
کہانی کچھ بتانا چاہتی ہے
مگر اس کے سبھی کردار چپ ہیں