اللہ معاف کرے۔ ہمیں تو 1992ء کا ورلڈ کپ ہی لڑ گیا ہے۔ ہمیں کیا خبر تھی کی ایک کرکٹ کا کھلاڑی کل کو ہمارا وزیر اعظم بن جائے گا۔ پو نے چار سالوں میں وزیراعظم نے ثابت کر دیا کہ وہ صرف کرکٹ کا کھلاڑی نہیں، باتوں کا بھی کھلاڑی ہے۔ اگر وہ دھرنوں میں یہ کہہ کر لو گوں کو پاگل نہ کرتا کہ میں ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھر بنا کر دوں گا۔ ایک نہیں دس ڈیم بنا ئوں گا۔ شیخ چلی نے انڈوں کی ٹوکری پر محًلات تعمیر کر ڈالے تھے اور ہمارے کھلاڑی وزیر اعظم نے انڈوں کے کاروبار سے لیکر بکریوں بھیڑوں اور گا ئے بھینسوں سے دولت کے انبار اکھٹے کرنے کا فا رمولے ایجاد کئے تھے۔ سیاست، زراعت، صنعت اور کھیلوں سے ڈالر منہ کے بل گرانے کی باتیں کی تھیں۔ سیاحت کے کئی نادر نسخے اور اُنکے نتا ئج سا منے آچکے ہیں۔ مری کا وا قعہ ہو یا موٹروے پر زیادتی کا وا قعہ ہو۔ سب نے یہی دیکھا کہ ماشا ء اللہ ہمارے وزیر اعظم گرمی سردی خزاں بہار میں بڑے ٹھاٹ سے نتھیا گلی جا تے ہیں۔ کبھی اہلیہ کے ساتھ، کبھی بچوں کے ساتھ، کبھی دوستوں کے ساتھ تو کبھی کابینہ کے ساتھ بس ہم نے تو سیا حت وزیر اعظم کے گرد گھومتے دیکھی ہے۔ ابھی چند سال پہلے تک شمالی علاوہ جات میں چند غیر ملکی بھی نظر آ جاتے تھے جبکہ دس سال پہلے کافی تعداد میں غیر ملکی آیا کرتے تھے مگرگزشتہ چار سالوں سے غیر ملکیوں کے لیے ’’اکھیاں اڈیک دیاں‘‘ ہو گئی ہیں۔ سیا حت کو جانے وا لے را ستے نو حہ کناں ہیں جو سڑکیں پانچ یا دس سال پہلے تھیں، آج اور کھنڈر نما ہیں۔ ہنزہ کاغان ناران چترال سکردو جانے کے لیے آج بھی جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے۔ کو ئی سڑک سالم نہیں ہے۔ رہا ئش اور خوراک کے ناقص، مہنگے، تکلیف دہ انتظامات ہیں۔ سیا حت کے فروغ پر اتنے سہانے خوا بوں کی اتنی بھیانک تعبیر نکلی ہے۔ زرا عت کا یہ حال ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے آٹے کو ترستے ہیں۔ سبزیاں آج پھلوں کی قیمت میں ، اور پھل چا ندی کے بھائو بکِ رہے ہیں۔ ڈرائی فروٹ رتی ماشے تو لے کے حساب سے خریدے جا رہے ہیں۔ آٹا اصل قیمت دو گنا مہنگا مل رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ گا جر مولی ٹماٹر پیاز جو سب سے سستی سبزیاں تھیں۔ اتنی مہنگی فروخت ہو رہی ہیں کہ لوگوں کی قوت خرید جواب دے رہی ہے۔ شرمناک بات یہ ہے کہ ہری مرچ، دھنیا پو دینہ جو سبزی کے ساتھ مفت ملتا تھا۔ اب ایک ایک گڈی چا لیس پچاس میں ملتی ہے۔ صنعت کی ترقی دیکھ لیں۔ ساری صنعتیں بند پڑی ہیں۔ تمام ورکرزبیکار بیٹھے ہیں۔ صنعتیں کارخانے فیکٹریوں مِلیں سب بجلی پانی گیس تیل اورپڑول ڈیزل سے چلتے ہیں مگر ان سب کی قلت ہے اور انتی زیادہ مہنگی ہیں کہ سب کچھ ٹھپ پڑا ہے۔ تعلیم کا شعبہ پسماندگیوں کی انتہائوں کو چُھو چکا ہے۔ ان چار سالوں میں تعلیم با لکل تباہ برباد ہو گئی ہے۔ تربیت تو پہلے ہی معدوم ہو چکی ہے۔ تنقید اور تخلیق ہماری تعلیم سے ہی نہیں ۔۔۔۔سا ئنس اور ٹیکنالوجی سے بھی ختم ہو چکی ہے۔ کھیلوں کی حا لت یہ ہے کہ تمام کھیل فنا ہو چکے ہیں۔ بس پوری قوم کے لیے دو ہی کھیل با قی ہیں کہ لڑکے گلی کوچوں محلوں میں کرکٹ کھیل کر لوگوں کے گھروں کے شیشے تو ڑ دیتے ہیں یا سر پھوڑ دیتے ہیں ورنہ اب پاکستان میں خو د ہی پاکستانی ٹیمیں اچھل کود کر کرکٹ کھیل لیتی ہیں۔ کچھ گا نے وا نے چلا دئیے جاتے ہیں اور کچھ سٹوڈیوز میں بیٹھ کر کرکٹ کا کاحول بنا کر شور شرابہ کر لیتے ہیں۔ دوسرا کھیل یہ ہے کہ ہر شخص دوسرے کو چُونا لگا نے کا کھیل کھیلتا ہے۔ سیاست کے ایوا نوں میں جو کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ عوام بھی اب انھی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ ایک لمبی چوڑی کابینہ ہے۔جس کی کارکردگی صرف جھوٹ بولنا ہے۔ اپنی وزا رتوں اور کاموں پر کچھ نہیں بو لتے۔ بس ہر وقت وزیر اعظم کی خوشامد، اپوزیشن پر لعن طعن اور جھوٹ کے طُورمار با ندھے جاتے ہیں۔ سا را دن آرام کرتے ہیں یا دیگر شغل میلوں میں لگے رہتے ہیں۔ شام ہو تے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر جا کر انتہائی غیر ضروری بحثیں اور لا یعنی گفتگو کرتے ہیں۔وزراء نواز شریف، شہباز شریف، بلاول، فضل الرحمان، مریم نواز وغیرہ پر فقرے کستے ہیں اور اپوزیشن والے عمران خان، کابینہ اور اُن کی نالائقیوں کا مذا ق اڑاتے ہیں۔ ٹاک شوز ختم ہو تے ہی یہ چائے کی چسکیوںہنسی مخول کرتے ہیں۔ جہاں تک ہماری سفارت کاری کا تعلق ہے۔ وہ ساری دنیا سے کٹ کر آئی ایم ایف کے آگے جی حضوری اور سعودی عرب چین کے دورہ تک محدود رہ گئی ہے۔ یہ وورے بھی فرمائش اور گزا رشارت پر کئے جاتے ہیں۔ ملائیشیا ترکی ایران افغانستان روس، متحدہ عرب امارات ترکما نستان تا جکستان آزر با ئیجان تک پاکستان سے کنی کترا کر چلنے لگے ہیں کہ کہیں دُورے کے بہانے یہ ہم سے پھر کچھ نہ کچھ مانگنے لگیں۔ امریکہ برطا نیہ فرانس جرمنی آسٹریلیا نے تو با لکل ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں ریاست مدینہ قا ئم کر دی ہے۔ کاش وزیر اعظم بھاشن کے بجائے را شن دیتے اور کہنے کے بجائے سُنا کر تے۔ ایسے مسا ئل حل نہیں ہوتے۔
باتوں کے کھلاڑی
Feb 08, 2022