خا ک جو خوں میں ملائی ہے میں نے

اب ہم تھک گئے ہیں ہمارا حوصلہ ہماری برداشت جواب دے رہی ہے ۔ جسم میں دوڑنے والا خون بھی سوال کر رہا ہے کہ کشمیر کی آگ بجھانے کیلئے بے تابی کب ختم ہوگی۔ سینے میں دھڑکنے والا دل مزید شہداء کے تابو ت اور تابوت کے اوپر کھڑی بے بس ماں جو کبھی خون کے آنسوروتی ہے اور کبھی شہید بیٹے کے شہادت پرفائز مرتبے پر دل کو تسلی دیتی ہے۔ میں مزید نہیں دیکھ سکتا اس بے بس کھڑے باپ کو جس نے بیٹے کیلئے نہ جانے کیا کیا سپنے دیکھتے تھے۔ کس طرح کندھوں پر بٹھا کر گائوں کے سکول لے کر جاتا تھا کم وسائل کے باوجود شہزادہ بناتا تھا۔ جس نے بڑھاپے کا سہارا بنناتھا اور ساتھ کھڑی ہوئی بیوی جس نے اپنا سہاگ پاکستان کو دے دیا اور ساتھ کھڑا ہوا چھوٹا سا معصوم بچہ جو کبھی دادا کبھی دادی سے سوال کرکے ماں سے پوچھتا ہے مما ۔۔ پاپا بولتے کیوں نہیں ۔ اب باپ کے حصے میں پاکستان کا جھنڈا آیا ہے اور باپ کا کہنا ہے کہ میرے اور بیٹے بھی پاکستان پر قربان۔ اب بس کریں بس بہت ہو گیا۔ کیونکہ شہدأ کیلئے بہنے والے آنسو اب ختم ہو گئے ہیں۔ اب باری ہندوستان کی ہے۔ اسکے دوستوں کی ہے اب انتقام کی آگ کو بھڑکنے سے مزید نہیں روکا جا سکتا ۔ پاک فوج کے سپوتوں نے اپنے خون سے آزادی کشمیر کی کہانی مکمل کر دی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان میں ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی کو کشمیر کے مظالم پر دنیا میں نشان عبرت بنایا جائے۔ 
میرا ایمان ہے کہ "جہاد سے چشم پوشی"نے عالم اسلام کو دنیا میں رسواہی نہیں کیا ذلیل و خوار بھی کر دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر اگر UN کی قراردادوں سے حل ہونا ہوتا تو ہو چکا ہوتا۔ اس مرض کی دوا اور ہے اگر کوئی عقل کا اندھا یہ سمجھتا ہے کہ کشمیر ہندو بنئیے کی منت یا ٹرمپ جیسے امریکن صدر کی دوستی سے حل ہوگا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ صدر ٹرمپ کا مودی اور عمران خان کو بغل میں لے کر کشمیر پر ثالثی کے وعدے نے کشمیریوں کے ساتھ وہ کر دیا جو تصور سے بالا تر ہے۔ ٹرمپ ثالثی کے بعد کشمیر پر کافر کا قبضہ مزید مستحکم ہو گیا  ہماری کشمیری بیٹیوں کی عصمت دری جتنی ٹرمپ کی ملاقات کے بعد ہوئی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔آئو سنو کشمیری بچے کیا کہہ رہے ہیں:۔ 
یہ ہے میری اپنی جنت مجھ کو اس میں رہنا ہے 
سُن لو دنیا کے رکھوالو مجھ کو بھی کچھ کہنا ہے
یاد ہیں تم کو ساروں کے دکھ میرا دکھ کیوں یاد نہیں 
اب تو ہے آزاد یہ دنیا پھر میں کیوں آزاد نہیں؟
 پاکستان میں مختلف حکومتیں آئیں اور بڑے بڑے  سیاستدانوں کو نوازنے کیلئے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی سیٹ پر بٹھا یا گیا۔ اگر انکی کارکردگی دیکھی جائے تو بیٹھنے اور بٹھانے والوں کو پھانسی پہ چڑھانا لازم ہے۔ دراصل کشمیری پاکستان کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے اپنا خون بہا رہے ہیں اور ہم کمال کے لوگ ہیں کی انکی سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی مددسے آگے ہی نہیں بڑھ رہے ۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ جو کام ہم سیاسی اور سفارتی طور پر ستر سال سے زائد عرصے میں نہیں کر سکے کشمیریوں کو انکے حال پر چھوڑ دیں تاکہ وہ اپنا مقدمہ اپنی مرضی سے لڑیں۔ ایٹمی پاکستان کی کشمیر پر کمزور پالیسی نے کشمیر کا مقدمہ خراب کر دیا ہے ۔ کوئی بھول میں نہ رہے آج بھی غیرت مند پاکستانی کم از کم اپنے گھر میں بیٹھ کر بات ضرور کرتا ہے۔ یہ نوشتہء دیوار ہے کہ یوم کشمیر پر نکلنے والی ریلیوں اور حکومتی ایوانوں کی مذمت سے کشمیر قیامت تک آزاد نہیں ہو سکتا ۔ قوم کو بتایا جائے کہ کشمیر کب آزاد ہوگا۔ اب ٹائم فریم دینا ہوگا اور صحیح معنوں میں واضح پالیسی اپنانا ہوگی۔ اب قوم کی آنکھوں میں دھول مت جھونکیں لوگ اب ڈاکٹر قدیر خان کے بنائے ہوئے اور چاغی پر آزمائے ہوئے استحقام پاکستان اور آزادی کشمیر کے ضامن تحفوں کے ساتھ شاہین اور غوری کوآزمانا چاہتے ہیں ۔ قرآن کریم میں جتنی قوموں کی تباہی کا ذکر ہے ان میں زیادہ تر کی تباہی کی وجہ حقوق اللہ سے دوری نہیں بلکہ ناحق قتل وغارت اور ناانصافی تھی۔ اگر سادہ لفظوں میں کہا جائے تو معاملہ حقوق العباد کا ہے۔ آج ہم سب کو اور خاص طور پر ذمہ دارانِ چمن کے سوچنے کا وقت ہے کہ یہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا۔ اور ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے اور کب تک ابھی نندن واپس کرتے رہیں گے۔ آج ہندوافغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان کے ساتھ پاکستان کے دوسرے حصوں میں خون بہا رہا ہے اور ہم بیانات تک اکتفا کر رہے ہیں۔ اب ایک قدم آگے بڑھیں کہ ہندو کا یہی علاج ہے۔ پاکستانی قوم زندہ قوم ہے آپ نے دیکھا نہیں کہ جب وطن عزیز کوضرورت پڑے تو یہ افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس زندہ قوم کے بزدلی کی چکی میں پِس جانے سے پہلے ضرور یہ سوچیں کہ ففتھ جنریشن وار کا کاری وار ہم پر چل چکا ہے۔ دشمن بلوچستان میں خوف کی فضأپیدا کر کے قوم کی سوچ بدلنے کے درپے ہے۔ اور سنیں پاکستان پر قربان ہونے والے قوم کے بیٹے کیپٹن بلال کیا کہہ رہے ہیں ۔ شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات:۔
خا ک جو خوں میں ملائی ہے میں نے
 ماں کے قدموں سے اُٹھائی ہے میں نے 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...