شہر لاہور کے قدیمی باسیوں کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ٹائون ہال کے سامنے واقع ناصر باغ کسی زمانے میں گول باغ کہلاتا تھا، ایک دور میں یہ باغ موچی دروازے کے بعد لاہور کی سیاسی سرگرمیوں کا دوسرا بڑا مرکز تھا۔ ہر قد آور رہنما اور مقبول عوام سیاسی جماعت عوامی رابطے کے لیے اس وسیع و عریض باغ کو بطور جلسہ گاہ استعمال کیا کرتی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن، مولانا عبدالحمید خان بھاشانی، سید مودودی، ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، ایئر مارشل اصغر خان، خان عبد الولی خان ، شاہ احمد نورانی اور رفیق باجواہ غرضیکہ ماضی مرحوم کا کونسا ایسا بڑا سیاسی قائد اور زعیم تھا جس نے گول باغ کے سٹیج سے عوام سے خطاب کا شرف حاصل نہ کیا ہو۔
یادش بخیر! ’’قائد عوام بھٹو‘‘فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ کے سربرآوردہ وزراء میں سے تھے۔ 65ء کی سترہ روزہ جنگ کے بعد ’’کالعدم‘‘ سوویت روس کے شہر تاشقند میں پاکستان اور بھارت کے سربراہوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں ’’اعلان تاشقند‘‘ سامنے آیا۔ شروع شروع میں تو بھٹو صاحب ’’اعلان تاشقند‘‘ کو ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے مترادف قرار دیتے رہے لیکن بعدازاں بعض ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کی بنیاد پر انہوں نے اس کی ببانگ دہل مخالفت شروع کر دی۔ مارشل لاء کی پیداوار وزیر خارجہ نے پاکستان کا پہلا ’عوامی لیڈر ‘بننے کی ٹھانی تو اعلان کیا کہ میں عنقریب ’’معاہدہ تاشقند‘‘ کے راز فاش کر دوں گا۔ اب ’’زلفی‘‘ نے اپنے فیلڈ مارشل ڈیڈی سے پکی ’’کٹی‘‘ کر لی تھی۔ یہ 1970ء کے انتخابات کے دنوں کا ذکر ہے جب بھٹو لاہور آئے تو انہوں نے گول باغ میں جلسہ کا اعلان کیا۔ جلسہ کو ناکام بنانے کے لیے سخت ترین ریاستی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ جو بھی گول باغ میں داخل ہوتا اسے محسوس ہوتا کہ راستے سب بند ہیں کوچۂ قاتل کے سوا …ان تمام’ حکومتی حفاظتی تدابیر‘ کے باوجود جلسہ ہوا۔ قائدعوام کی تقریر دلپذیر سے پہلے شاعر عوام حبیب جالب نے ایک نظم پڑھی جس میں ٹیپ کے بند کا مفہوم یہ تھا :
بیس روپے من آٹا
چاروں جانب سناٹا
حبیب جالب کی مترنم آواز فضا میں گونجی تو چاروں جانب واقعتاً سناٹا چھا گیا…واضح رہے کہ جنرل ایوب خان کے زمانے میں 8 سال تک اشیائے خورو نوش کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ 1958ء سے 1966ء تک کھلی مارکیٹ میں فی من آٹے کی قیمت 18 روپے تھی۔ 1967-68ء میں جب آٹے کے نرخ فی من 20 روپے ہوئے تو عام شہری تشویش واضطراب کے انگاروں پر لوٹنے لگے۔ اس پر شاعر عوام حبیب جالب نے عوامی محسوسات کو اس نظم کے قالب میں ڈھالا۔ جب وہ اپنے مخصوص مترنم لہجے اور پاٹ دار آواز میں عوامی اجتماعات میں سناتے تو پورا مجمع ٹیپ کے اس بند کو ان کی ہمنوائی میں دہراتا۔ یوں یہ نظم ملک کے طول و عرض میں احتجاج کی توانا اور قوی لہر کو مہمیز دینے کا موجب بنی۔ کیا مغربی پاکستان اور کیا مرحوم مشرقی پاکستان، ون یونٹ کے دونوں حصوں کے کروڑوں عوام ٹیپ کے اس بند کو احتجاجی نعرہ بنا کر شاہراہوں، جلسہ گاہوں، گلیوں، کوچوں، میدانوں اور کھلیانوں میں نکل پڑے۔ حالانکہ فی من آٹے کی قیمت میں اضافہ صرف دو روپے ہوا تھا۔ اس کے نرخ 18 روپے سے 20 روپے ہو گئے تھے۔ اور ہر طرف ایک ہی احتجاجی نعرہ گوج رہاتھا:
20 روپے من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر سہگل آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
صدر ایوب زندہ باد
بعد ازاں مذکورہ جلسہ میں آٹے کی اسی ’’ہوشربا گرانی‘‘ کو جواز بنا کر بھٹو نے ایوب خان مرحوم کی خوب خوب خبر لی۔ روٹی کپڑا اور مکان کی ڈگڈگی بجی تو ہر کہ و مہ نے تاتھنک تاتھیا کی تھاپ پر مارے خوشی کے ناچنا ٹاپنا شروع کر دیا۔ ڈگڈی بجتی رہی۔عوام ناچتے رہے لیکن روٹی کپڑے اور مکان کا خواب خواب ہی رہا۔
مہنگائی، جس کا رونا رو کر قائد عوام نے سیاسی شعبدہ بازیوں سے ایوب حکومت کے خلاف تحریک چلائی، جب خود اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہوئے تو مہنگائی میں مزید اضافوں کے نئے نئے جواز تراشنے لگے۔ ’’مہنگائی خاتون‘‘ اور’’گرانی خانم‘‘ کے لیے عوامی دور ایک سنہرا دور ثابت ہوا۔ اس ’’بابرکت دور‘‘ میں اس نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی…دودھوں پلی اور پوتوں پھلی۔ دیکھتی آنکھوںیہ فتنہ قیامت،لو الائو اور چنگاری شعلہ جوالہ بن گئی… تب سے یہ ’’بلا‘‘ اس طرح پنجے جھاڑ کر عوام کے پیچھے پڑی کہ آج تک اس سے پیچھا نہیں چھڑایا جا سکا۔
قائد عوام کا دور تو خیر قصہ پارینہ ہوا، آج ’’قائد لاثانی عمران خان‘‘ کا عہد سعید ہے۔ تھکے ہارے اور دکھوں کے مارے عوام اب تو یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ وہ زندگی نہیں ’’قید‘‘ کاٹ رہے ہیں۔ جمہوری ممالک میں حالت قید میں بھی قیدیوں کو جو سہولتیں حاصل ہوتی ہیں، ہمارے ہاں تو آزاد ریاست کے ’’آزاد عوام‘‘ بھی اُن سہولیات کا تصور نہیں کر سکتے، جو نوآبادیاتی عہد میں غلام قیدیوں کو حاصل ہوتی تھیں۔ عوام کی حالت زار یہ ہے کہ جس طرف بھی ان کی نگاہ اٹھتی ہے، مصائب و آلام کے سگانِ آزاد کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں… ہرسانس چھری بن کر ان کے حلق سے نیچے اترتی ہے، ہر لمحہ زنجیربن کر ان کے اعضاء و جوارح کو جکڑ رہا ہے، ہر دن جیل کی سنگین چار دیواری بن چکا ہے۔ خوشیوں، راحتوں اور آسودگیوںکو غیر معینہ مدت کیلئے حکم نظربندی سنا دیا گیا ہے۔مہنگائی کے اس دیو بے زنجیر کو کون قابو کرے گا؟ وہ مقتدر طبقے جو اربوں کے عالیشان محلات تعمیر کرنے میں مگن ہیں یا وہ معزز ہستیاںجو اپنی اور اپنے آبائو اجداد کی امارت کے قصے سناتے ہوئے نہیں تھکتیں؟…چھوڑیئے! ان قصوں کو۔ آیئے! ہم گول باغ واپس چلیں جہاں حبیب جالب کی زندہ آواز آج بھی فضائوں میں سانس لے رہی ہے اور پوچھ رہی ہے کہ اب تو آٹا2400روپے من ہے…پھر بھی چاروں جانب سناٹا ہے…کیوں؟
٭…٭…٭