عمران امین
پورے ملک میں عجیب سی فضاء بنی ہوئی ہے جس کو ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ معاشی طور پر بحران کا شکار اورہر طرف مہنگائی کی یلغار ہے مگر سیاست دانوں نے گرم کر رکھا ہے الزام تراشی کا بازار،اپنے احتساب سے ہے سب کوانکار جبکہ بلند کرتے ہیں دوسروں کے احتساب کی پکار ۔اس صورت حال کی وجہ سے آج کل پاکستان کاسیاسی میدان خوب گرم ہے کیونکہ کل تک جو نرم اور گرم بستروں پر استراحت فرما رہے تھے اور اُن کے فرمان کوقانون کا درجہ دیا جاتا تھا،آج وہ زمانے کی گرم ہوائوں کی زد میں ہیں۔سیانے لوگ کہتے ہیں ’’جیسی کرنی ،ویسی بھرنی‘‘۔قومی سیاست کے قائدین اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سیاست ڈائیلاگ کے عمل کا نام ہے اور یہی عمل جمہوریت کی شان ہے۔مگر افسوس جب سیاسی مفادات اور ریاستی مفادات کا ٹکرائو ہو جائے تو یہی سیاسی قائدین موقع محل دیکھ کر مکالمہ بند کر دیتے ہیں اور اپنی سیاسی قوت کے بھرپور اظہار کے لیے سیاسی کارکنوں کو بطور سیاسی ڈھال بھی استعمال کرتے ہیں۔اگرچہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ’’جیل بھرو‘‘ تحریک کا اعلان تو کر دیا مگر اس اعلان کے فوراً بعد سیاسی تجزیہ نگار اس اعلان کو کپتان کااگلایو ٹرن بھی قرار دے رہے ہیںجیسا کہ انہوں نے حالیہ دنوں میں قومی اسمبلی کے تمام ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے سے یوٹرن لیا تھا۔ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ عمران خان پہلے جب جلسہ گاہ بھرنے کی بات کرتے تھے تو تب بھی مخالفین مذاق اڑاتے تھے اور اب جب وہ جیل بھرنے کی بات کر رہے ہیں تو ایک بار پھر اُن کے سیاسی مخالفین مخول کر رہے ہیں اگرچہ بار بار یوٹرن کے سبب اب سیاسی پنڈتوںکے لیے عمران خان کی بات پر یقین کرنا مشکل ہوگیا ہے مگر یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ لاتعدادیوٹرن کے باوجود کپتان عوام میں مقبول ترین رہنماہے۔ اگر ہم جیل بھرو تحریک کے حوالے سے برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ انگریزوں کے دور میں جیل بھرو تحریکیں شروع ہوئی۔اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ملک میں کالا قانون نافذ تھا کیونکہ حکمران بھی انگریز اور عدالتوں کے منصف بھی انگریز تھے۔عوام کو کوئی پلیٹ فارم میسرنہیں تھا جہاں سے اُن کو دادرسی کی امید ہوتی۔لہذااس سوچ نے سیاسی لوگوں کو اس تحریک کے آغاز پر اُکسایا۔پاکستان بننے کے بعدبھی مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی قوت کے اظہار کے لیے اس طرح کی تحریکیں چلائی مگر انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ذوالفقار علی بھٹو نے جب 1977ء میں جیل بھرو تحریک چلائی تو عوام کی ایک کثیر تعداد باہر آئی اور کہا جاتا ہے کہ اس وقت 20سے30ہزار لوگوں نے گرفتاریاں دی ۔اب یہاں سوال ہے کہ کیا اس وقت ہم کسی غیر ملکی حکمران قوت کے زیر اثر ہیں ؟کیا ہماری عدالتوں میں غیر ملکی منصف بیٹھے ہیں؟۔ ان سب سوالات کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔جب ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو کیا ہم سمجھ لیں کہ اس جیل بھرو تحریک کا مقصد ملک کا امن خراب کرنا اور معیشت کو برباد کرنا ہے ۔اس بات کو پی ٹی آئی کے اس عمل سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان ایک طرف جیل بھرو تحریک کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُن سمیت پارٹی کی اعلیٰ قیادت اپنے خلاف درج مقدمات میں عدالتوں سے ضمانتیں مانگ رہی ہے۔اگر خان صاحب اپنی بات پر بضد ہیں تو سب سے پہلے تو انہیں اپنی اور دیگر رہنمائوں کی عدالتوں میں جمع کروائی گئی ضمانتوں کی درخواستیں واپس لینی ہونگی اور خود کو گرفتاریوں کے لیے پیش کرنا ہوگا۔اس کے بعد اپنے خاندانوں کے افراد کو سامنے لانا ہوگا تاکہ وہ سیاسی کارکنوں کے لیے مثال بنیں۔یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ اپنے سادہ لوح سیاسی کارکنوں کی گردنوں پر پائوںرکھ کر اقتدار کی کرسی کی طرف بڑھا جائے۔ایسے موقع پر حکومتی ارکان پر بھی لازم ہے کہ وہ مقابلے میںتندو تیز اور تلخ بیانات جاری کرنے سے پرہیز کریں تاکہ سیاسی فضا سازگار ہو۔ملک کی موجودہ صورت حال میں اداروں کو بھی اپنا فعال لردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اب معاملہ ملک کی سلامتی کا ہے ،عوام کے دکھ درد کا ہے اور ملکی معیشت کی بحالی کا ہے۔اداروں کے خاموش رہنے اور سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں کردار ادا نہ کرنے کا نتیجہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں اور اس دکھ کو اچھی طرح جانتے بھی ہیں۔ہمارا دشمن تاک لگائے بیٹھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ناسازگار سیاسی حالات اور ملکی سیاسی قوتوں کی باہمی کشیدگی کو دیکھ کر دشمن نے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر اپنا کام تیز کر دیا ہے ۔ملک میں دہشت گردی کی تازہ لہر اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال سنجیدہ قدامات کی طالب ہے۔پہلے ہی عام آدمی مہنگائی سے مر رہا ہے جبکہ دوسری طرف عوام کے لیے یوٹیلیٹی بلز میں مسلسل اضافہ وبال جان بن چکا ہے لہذا قوم کی عمران خان سے درخواست ہے کہ اس مشکل وقت میں ملک کسی جیل بھرو تحریک یا پہیہ جام ہڑتال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔سب سیاسی جماعتوں کو سیاسی مفادات کو ریاستی مفادات کے تابع کرنا ہوگا اورا بھی وقت ہے کہ سیاسی قوتیں سیاسی مفادات سے نکل کر ریاستی مفادات کے تحفظ کے لیے اکٹھی ہوجائیں مبادا کہ ہم ایک بار پھر 1971ء کی تاریخ کو دھرائیں۔