شوکت ورک
ہمارے خیال میں مسئلہ کشمیر کا واحد اور آخری حل بھارت کے خلاف جہاد ہی ہے۔ اب فیصلہ کرنے کا وقت آ گیا ہے اور آگے بڑھنے کے سواکوئی اور آپشن نہیں ہے۔لیکن جہاد کے اعلان کا فیصلہ ریاست کو کرنا ہوتا ہے۔گزشتہ 75برسوں سے بھارت نے مظلوم کشمیریوں پرظلم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں اور بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ استصواب رائے کشمیریوں کا حق ہے جوانہیں ملنا چاہیے۔ 75برسوں سے بھارت اس فیصلہ پر عمل نہیں کیا۔ اقوام متحدہ نے پابند کیا ہے کہ فریقین اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں لیکن بھارت نے مخالفت کی اورعمل نہیں کیا۔مسئلہ کشمیر اصل میں ہے کیا؟ اس کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انڈیا اور پاکستان کی۔ دونوں ممالک اس خطے پر مکمل کنٹرول کے لیے دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں ۔14اگست اور 15 اگست 1947 کو برطانیہ سے آزادی کے بعد دو خود مختار ریاستیں پاکستان اور بھارت وجود میں آئیں۔ریاستوں اور راجواڑوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ زیادہ تر ریاستوں کے مہاراجائوں نے اپنی آبادی کی خواہشات کی بنا پر بھارت یا پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا مگر کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی مسلمان اکثریتی ریاست کے آزاد رہنے کو ترجیح دی۔کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہیں کیا، اکتوبر 1947 کے دوران کشمیر میں جاری داخلی خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے،26 اکتوبر 1947کو مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیئے تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی ،27 اکتوبر 1947 کو بھارت نے کشمیر میں بغاوت کو کچلنے کے لئے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں۔ جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔بھارت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ سے مدد مانگی۔ اقوام متحدہ نے رائے شماری کرانے کے لئے 5فروری 1948 کو ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ۔ اقوام متحدہ نے یکم جنوری 1949کو جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا ۔26 جنوری 1950 کو بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا گیا۔ جس میں ریاست جموں و کشمیر کو دفاع ، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی۔
اکتوبر 1950میں شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تاکہ ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرے ۔30 مارچ 1951 کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے، ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا ۔ستمبر 1951میں کشمیر کی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس نے تمام 75 نشستیں بلا مقابلہ حاصل کر لیں۔31اکتوبر 1951کو شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔جولائی 1952کو شیخ عبدااللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیئے جس کے تحت بھارت کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جائے گی۔جولائی 1953میں سائما پرشاد مکر جی نے 1952 سے کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع کر رکھی تھی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔8 اگست 1953 کو شیخ عبدالاللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کر کے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔17سے 20اگست 1953کو بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے درمیان دہلی میں ملاقات ہوئی ۔جس میں اپریل 1954 کے آخر تک وہ کشمیر میں رائے شماری کے لیے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پر متفق ہو گئے تاہم جیسے ہی پاکستان اورامریکہ کے درمیان سٹریٹجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کوبھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا۔اس کے بعد کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن کشمیر کے مسئلہ کا کوئی مثبت اور مستقل حل نہیں نکال سکیں
آخر کار بھارت کی ظالم مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر وادی میں ظالم وبریت کی انتہا کردی اور 5 اگست 2019 کو تحریک آزادی کی صدا کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے قانون میں تبدیلی کی اور کشمیریوں پر ظلم و ستم کے نئے دور کا آغاز کیا، ویسے تو کشمیریوں پر ظلم و ستم برسوں پہلے شروع ہوا تھا اور کشمیر کی تقسیم اور بندر بانٹ اونے پونے داموں کرنے کا آغاز کیا گیا تھا مگر ان سب کے باوجود کشمیریوں کی صدائے حریت بھی برسوں سے ہی گونج رہی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت پر اپنا دبا ئوبڑھائے اور مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ کشمیریوں کو حق خودارادیت دینا ان کا بنیادی حق ہے۔ استصواب رائے کے ذریعے وہ خود اپنا فیصلہ کرسکتے ہیں لیکن بھارت نے کشمیر پر شب خون مارتے ہوئے آرٹیکل 370ختم کردیا اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں پر ہندوئوں کو شہریت دی جا رہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو روکنے کا واحد حل بھارت کے خلاف جہاد ہے اور اس جہاد کا اعلان ریاست پاکستان کی جانب سے کیا جانا چاہیے کیونکہ بھارت نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو للکارا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اب زبانی جمع خرچ اور قرادادوں سے باہر نکل کر عملی طور پر کچھ کرے۔اب قراردادوں کا وقت گزر چکا ہے۔ حکومت اور پاک افواج کشمیریوں کی کھل کر حمایت کرتے آ رہے ہیں۔ پاک افواج بھی اگر کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پاکستان کے عوام اور بچہ بچہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ پاکستان کے جو بھی حالات ہوں لیکن مشکل وقت میں سب متحد ہیں۔پاکستان کو کئی قسم کے چیلنجز درپیش ہیں۔ ہمیں اپنے اندرونی مسائل سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو روکنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔