ملکی اور معاشی استحکام مثبت رویوں کا محتاج


ملک کے معاشی حالات انتہائی تشویشناک حد تک تحتِ سطح ہو گئے ہیں کہ ایک عام آدمی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے پیشِ نظر مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے ، اشیائے خورونوش غریب کیا متوسط طبقے کی استطاعت سے بھی باہر ہو گئی ہیں ، حکمراں روزمرہ کے استعمال کی اشیاءکی گرانی سے بے خبر جوڑ توڑ کی سیاست میں مگن ہیں ، سیاسی تماشے بازیاں عروج پر ہیں گرفتاریوں کے منصوبے حشرات کی مانند اند ر اور باہر جسے آج گرفتار کیا وہ کل رہا ہوگیا ، تاہم معاشی بحران میں ایسے عوامل پر بھی اخراجات غریب عوام کے ٹیکسوں سے ہی ادا ہوں گے ۔
پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال پر عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ نے دل ہلا کر رکھ دیا ہے ، امریکہ کے زیرِ اثر عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال انتہائی خستہ ہے،ایسی تشویشناک معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کےلئے پاکستان کوسخت فیصلے کرنا ہوں گے ، 
گذشتہ سال ماہ نومبر میں وزارتِ خزانہ کی ماہانہ رپورٹ میں ملک کا مالیاتی خسارہ 809 ارب روپے ظاہر کیا گیا تھا ، جب کہ اسی ماہ کے دوران مہنگائی کی شرح 25.5 فی صدریکارڈ کی گئی تھی ، وزارتِ خزانہ نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا تھا کہ حکومتِ پاکستان کے کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ ، درآمدات ،غیر ملکی سرمایا کاری اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی ہے ، جب کہ بیرونِ ملک سے ترسیلات زر میں 8.6 فیصد کمی ہوئی اور چار ماہ میں بیرونِ ملک سے 9ارب 90 کروڑ ڈالر کی ترسیلات ہوئیں تھیں، جو کہ گذشتہ سال 10 ارب 80کروڑڈالر تھیں ۔
پاکستان کے مالیاتی خسارے کا پتہ لگانے، اسے کم کرنے کےلئے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) نے تقریباً 900ارب روپے کے مالی خسارے پر تحقیق کی جو کہ ملکی پیداوار ( جی ڈی پی ) کے ایک فیصد کے برابر ہے اور اس وقت آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول کے معاہدے میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے پاکستانی حکام اس بنیادی خسارے کو کم کرنے کےلئے تیار ہو گئے ہیں ۔پاکستان کے مالی خسارے پر آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ محصولات کی شرح میں اضافے کےلئے ” ویلیو ایڈز ٹیکس “ کے نفاز کے علاوہ دیگر متبادل اقدامات پر بھی غور کرے ، عالمی مالیاتی ادارے نے مزید اقدامات تجویز کئے تھے کہ حکومتِ پاکستان کو بجٹ خسارے میں کمی کےلئے ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات لانے اور ٹیکس پالیسی کے مﺅثر نفاذ کیلئے کام کرنا ہوگا ، جو حکومتِ پاکستان نا کر پائی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں ہدف سے 214 ارب روپے کم ٹیکس وصول کیا جب کہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4ہزار179 ارب روپے تھا ۔
دوسری طرف زرمبادلہ کے بحران اور مسلسل روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیاں شدید مالی بحران کا شکار ہیں کمپنیوں کے پاس سرمایا کی کمی کی وجہ سے آئل سیکٹر کا کاروبار انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے ، جبکہ ریفائنریز بھی متاثر ہو رہی ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کی ترسیل بند ہو جانے کے خطرے سے عنقریب دوچارہو جائے گی ۔
حالیہ آئی ایم ایف سے مالیاتی فنڈ کے مذاکرات مختلف اشیا ¾ اور اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنے اور محصولات میں شارٹ فال پر اختلاف برقرار ہیں ، آئی ایم ایف کےمطابق محصولات کا شارٹ فال 840 ارب روپے ہے جبکہ ٹیکس شارٹ فال 400 سے 450ارب روپے ممکن ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ آئی ایم ایف جی ایس ٹی 18فیصد تک بڑھانے اور فلڈ لیوی ، بینکوں کے منافع پر ٹیکس لگانے ترقیاتی اخراجات میں کمی کے ساتھ بجلی گیس پر سبسڈی ختم کرنے کی شرائط پر مُصر ہے ۔ 
2014 ءسے پاکستان کی سیاست میں انتشار الزام تراشیوں اور حکومت کو غیر جمہوری طریقے سے علیحدہ کرنے سے ملکی معیشت تنزلی کا شکار رہی اور ابھی تک استحکام کی کوئی صورت نہیں بن پا رہی ، پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے میں آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر موجود دستاویز کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت نے پٹرولیم لیوی 17 ، دسمبر 2021 ءکو بڑھانے کی یقین دہانی کرائی تھی ، جسکے عوض آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب سے زائد کی قسط ادا کی، لیکن پی ٹی آئی کی حکومت نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا ، جب کہ 4،فروری 2022 ءمیں ان دستاویز پر سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے دستخط ہیں ۔
آئی ایم ایف پچھلی حکومت کے رویے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حالیہ مذاکرات میںانتہائی سخت رویہ اپنا کر اپنی شرائط منوانے پر بضد ہے ، سرِ دست موجودہ حکومت ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنا کر اور شرائط کو تسلیم کر کے ہی قرض حاصل کر سکے گی، جس سے پاکستان کو قرض تو مل جائے گا مگر مہنگائی کا طوفان غریب کو تباہ و برباد کر دے گا ، جسے روکنے کے لئے سیاسی افہام وتفہیم کی اشد ضرورت ہے ، اس وقت ملکی اور معاشی استحکام سیاسی رویوں کا محتاج ہے، بعض سیاسی عناصر ملک میں انار کی پھیلا کر ملک کو مزید غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، انہیں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ساری قوم ایک ہی کشتی کی سوار ہے طوفانی لہریں بلا تفریق سب کو بہا کر لے جاتی ہیں ۔ 
 
 
 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...