آج کا انتخاب اور "طوطے" کی فال 

76 سال بعد ایک دفعہ پھر وطن عزیز سخت آزمائش کی زد میں آ گیا ہے۔ نجانے کیسا آسیب ہے جو پاکستان اور پاکستان کے عوام کو اپنے چنگل سے رہا ہونے ہی نہیں دے رہا۔ ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں آج تک کبھی کوئی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ پھر بھی الیکشن کرواتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ سیاست محض پاور گیم ہے اور سیاست دان کانوں کان کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں، پھر بھی  ان کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ اسٹیبلشمینٹ دعوؤں کے باوجود سیاست سے دور نہیں ہوسکی لیکن کبھی کوئی ان کا کچھ  بگاڑ نہیں سکا۔ ٹیکس بھریں تو عوام ،  غربت برداشت کریں تو عوام ، جبر سہیں تو عوام ، دھوکہ کھائیں تو عوام ، جھوٹ سنیں تو عوام۔ پاورگیم کھیلنے والے کبھی ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ سارا قضیہ واضح بھی ہے اور ہر سطح پر اس کا اعتراف بھی موجود ہے۔ بس اگر تسلیم نہیں کیا جا رہا تو یہ کہ محکوم طبقے کی کوئی حیثیت نہیں۔ جو بھی کھیل ہے وہ حکمران طبقے کی آپسی رسہ کشی ہے۔ 
آج ایک اور الیکشن آن پہنچا ہے جس کے لیئے عوام کو آج اپنے حقِ رائے دہی کے اظہار کا موقع مل رہا ہے مگر یہ انتخاب اپنے انعقاد سے پہلے ہی  مشکوک ہو چکا ہے۔ کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہوگا۔ میاں محمد نوازشریف تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی اس پاورگیم سے آوٹ نہیں ہوسکے۔ پیپلز پارٹی اب عوامی جماعت رہی ہی نہیں۔ سوائے پی ٹی آئی کے ہرجماعت دبی دبی سی شرمندگی چھپاتی نظر آتی ہے۔ عمران خان کو ہیرو بنانے کی حکمت عملی ایک قدم اور آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ وہی پرانی گریٹ گیم جس کی ڈوریاں نجانے کہاں سے ہلتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج اور اس کے بعد کے معاملات کے بارے میں تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کا اتفاق ہے کہ بڑے پیمانے پر دھاندلی اور اس کے بعد ہارس ٹریڈنگ ہوگی۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک میں اس دلچسپ الیکشن کے بعد جس کی بھی حکومت بنی آسانی سے چلتی دکھائی نہیں دیتی۔ ملک میں بحران کے گہرے کالے بادل چھاتے نظر آرہے ہیں جس کے باعث معیشت کی مزید تباہی ہوگی۔ ملک مزید کمزور ہوگا۔ البتہ ایک فائدہ الیکشن کا ایسا ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی الیکشن کروانے والوں اور لڑنے والوں کے ہاتھوں سے نکل کر کسی نہ کسی طرح کچھ نہ کچھ عام آدمی تک پہنچ ہی جاتا ہے اور وہ ہے سرکولیشن آف منی۔ اشتہاروں ، بینروں اور بریانیوں سے لیکر ووٹوں کی خرید و فروخت اور عوامی سکیموں ، الیکشن دفاتر اور ٹرانسپورٹیشن تک ہر مد میں اٹھنے والے اخراجات ان امیدواروں کی جیبوں سے نکلتے ہیں جو اس یقین پر خرچ کرتے ہیں کہ کئی گنا واپس آئے گا۔ سمجھدار لیڈر تو جب اقتدار میں آتے ہیں تو پچھلے الیکشن کے ساتھ ساتھ آنے والے الیکشن کے لیے بھی بہت کچھ بچا لیتے ہیں۔ 
میرے ذاتی تجزیے کے مطابق الیکشنوں پر دل کھول کے خرچ کرنے والے امیدواروں میں سب سے اول نمبر پر علیم خان دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ویسے ہی شاہ خرچ اور دریا دل انسان ہیں۔ ان کی سخاوت کا مظاہرہ عمران خان کے جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ وہ پیسے کے زور کے ساتھ ساتھ انسانی خدمت کی بنیاد پر الیکشن لڑنے والوں کی فہرست میں نمبر ون پر ہیں۔ ان کا سیاسی ویژن اگرچہ لوکل سطح کا ہی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ علاقے کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے کی سوچ رکھتے ہیں۔ نظریاتی سیاست اب ویسے بھی دم توڑ چکی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے صوبوں اور کونسلوں کو ایک ہی طرح چلایا گیا ہے۔ سائز کا فرق ضرور رہا ہے لیکن سیاسی ویژن یکساں ہی نظر آیا۔ گلی محلے کی سیاست نالیوں اور گلیوں کے سولنگ پکے کرنے تک رہی اور صوبے کی سیاست سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کی ترجیح نظر آئی۔ 
لگتا ہے جیسے ہمارے حکمرانوں کے اختیارات بھی کچھ اتنے اور ایسے ہی ہوتے ہیں۔ سڑکوں اور پلوں کے ٹھیکے دینے میں پورے اور بھرپور اختیارات جبکہ داخلہ خارجہ پالیسیوں کے حوالے سے بہت محدود ہیں۔ ہم مسلسل سیاسی و سماجی سطح پر بھی مسلسل زوال کا شکار ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں تو کمزور ہیں ہی، ہم تو آج تک علم کی روشنی دینے والا نصاب تک نہیں بنا سکے۔ جس ملک اور معاشرے کے پاس اپنے نظریے کے مطابق نصاب تعلیم نہ ہو اور نظام تعلیم بھی مستعار ہو اس کے پاس باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ظلم یہ ہوا ہے کہ اب یہ بات عام آدمی تک پوری تفصیل اور وضاحت سے پہنچ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیے کوئی بھی بیانیہ گھڑنا مشکل ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ یہ پرسیپشن بھی غلط نہیں کہ  ہمارے سیاستدان صرف پاور پاور کھیلنے آتے ہیں اسی لیے یہ پانچ سال پورے نہیں کرپاتے۔ اس تاثر کے  پبلک ہونے نے  سیاستدانوں کو مزید بینقاب کردیا ہے۔ اگرچہ جواباً بہت تلملاہٹ سننے کو ملی ہے اور اسٹیبلشمینٹ پر بھی اسی طرح کا جوابی وار کیا گیا ہے لیکن سیاستدان اس بیان کی تردید کی جرات نہیں کرسکے۔ اب جو عام شہری دونوں کے بیان سْن رہا ہے اسے دونوں سچے دکھائی دے رہے ہیں۔ یعنی پچھلے چھہتر سال کا نچوڑ یہی ہے کہ پاور پالیٹیکس کے خلاف اگر کسی نے سوچا بھی ہے تو یا تو سیاست سے آوٹ کردیا گیا ہے یا مارا گیا ہے۔ سائفر کیس میں عمران خان کو خصوصی عدالت کی طرف سے دس سال کی قید نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ جس ملک میں نہ کبھی کسی کو ملک توڑنے پر سزا ملی نہ آئین توڑنے پر لیکن خبر بریک کرنے پر سزا سنائی جاسکتی ہے۔ بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ سنانے والا نظام ، نوازشریف کو سزا دینے اور پھر بری کرنے والا نظام آج ایک اور سیاستدان کو سزا سنا رہا ہے اور تینوں میں مماثلت عوامی مقبولیت  ہے۔ یعنی سیاستدان بھی وہی چلے گا جو پاور کے ساتھ کھڑا ہوگا نہیں تو جیل بھی جائے گا اور ملک سے بھی نکال دیا جائے گا۔ جو پھر بھی ڈٹا رہا اسے قید بول دی جائے گی یا پھر پھانسی۔ اب یہ تمام کہانی پاکستان کے عام آدمی کی زبان پر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج کے انتخاب کے بعد کیا ہوتا ہے۔ طوطے نے تو میاں نوازشریف کی فال نکال دی۔ اب پتہ نہیں یہ فال سال بھی نکالتی ہے یا نہیں۔

ای پیپر دی نیشن