انتخاب ، یوم حساب 

Feb 08, 2024

فضل حسین اعوان

انتخابات پہلے بھی ہوتے رہے مگر جتنے آج ہونے والے انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات اور ابہام کے بادل منڈلاتے رہے تھے ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اب مہر ہاتھ میں آنے پر ہی یقین آیاکہ الیکشن بالآخر ہو ہی رہے ہیں۔ ابہام اور شکوک اس کے باوجود برقرار رہے کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اب تک کے اپنے مختصر دورانیئے میں کئی ’’معرکۃ الارا‘‘ فیصلے دیئے ہیں جو عدالتی تاریخ میں تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے8فروری کے انتخابات کو پتھر پر لکیر قرار دیا تھا۔ دوسرا ان کا حکمنامہ تھا کہ میڈیا میں الیکشن کے انعقاد پر کوئی دوسری رائے ظاہر نہیں کرے گا۔ ازراہ تفنن ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے8فروری کے الیکشن پر شک کا اظہار کرنا ہے تو ٹی وی پر نہیں بیوی سے کرے۔ قاضی صاحب کی پتھر پر لکیر والی بات تو آج درست ثابت ہو گئی مگر ٹی وی پر مناظروں کی صورت میں لے دے ہوتی رہی۔ دیدہ دلیری تو یہ بھی ہوئی کہ سینٹ میں انتخابات کے التوا کی قرار داد بھی لائی گئی جو منظور بھی ہوگئی۔ جس میں دہشتگردی کو جواز بنایاگیا تھا۔اس قرار داد کے بعد دہشتگردی کے کئی بھیانک واقعات ہوئے۔ مچھ میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے تھانے اور علاقے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی گئی۔ دو دن میں24دہشتگردوں کو ہلاک کر کے علاقے میں معمولات بحال کرائے گئے۔5فروری کو ڈی آئی خان تھانے میں19پولیس اہلکاروں کو دہشتگردوں نے خاک اور خون میں نہلا دیا۔
لگتا تھا کہیں اور بھی پتھر پر لکیر کھینچی گئی ہے۔ وہ انتخابات کو مؤخر کرانے کی تھی جو آج نقش بر آب ثابت ہوئی۔ 
لیول پلیئنگ کا ان انتخابات میں تذکرہ تواتر کے ساتھ ہوتا رہا۔ بلاول بھٹو زرداری تو آج صبح تک کہتے رہے کہ لیول پلیئنگ فیلڈ ملا تو سب کو مات دیدوں گا۔ تحریک انصاف تو لیول پلیئنگ فیلڈ کے لیے سپریم کورٹ میں بھی گئی۔ ایسی گئی کہ واپسی پر بلا وہیں چھوڑ آئی۔ آج بغیر بلے کے الیکشن میں اینٹر ہوئی ہے۔ اس نے الیکشن کمیشن کو آزمائش میں اس وقت ڈالا جب انتخابی نشان بانٹنے کا وقت آیا اور شاید یہ وقت بے وقت آگیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک اہلکار نے ہاتھ میں انتخابی نشانات کی لسٹ پکڑی ہوئی ہے دوسرے کے پاس امیدواروں کی فہرست ہے۔ یہ امیدوار کا نام بولتا ہے پہلے والا انتخابی نشان پکارتا ہیاور تیسرا لسٹ تیار کرتا جا رہا ہے۔ کسی کے حصے میں پلیٹ گلاس چمچ، بینگن بھنڈی قینچی پانسہ گھڑیال حتیٰ کہ جوتا بھی آیا۔ ایسے ایسے نشان بھی سامنے آئے جن کے نام پہلی دفعہ سنے گئے اور ان چیزوں کو دیکھا گیا۔ایک امیدوار کو Kکا نشان ملا وہ اسے کے ٹو پہاڑ سمجھے،سگریٹ یا خانساماں۔ بہرکیف ہر کسی نے انہی نشانات کو قبول کر لیا جو تفویض کیے گئے۔ تحریک انصاف کو حکومت اور الیکشن کمیشن سے بڑے شکوے رہے شکائتیں رہیں۔ ان کو نو مئی کے واقعات اس نہج پر لے آئے۔ اس کی طرف سے الیکشن کا بائیکاٹ نہ کرنا بہتر آپشن تھا۔ پاکستان میں حالات بدلتے سال اور صدیاں نہیں لگتیں۔ کبھی تو شب بھر میں شباب لوٹ آتا ہے۔ میاں نواز شریف کی زندگی کے سائیکلز کو دیکھ لیں۔قسمت کی دیوی کبھی روٹھی  اکثر مہربان ہوئی۔ میاں نواز شریف نے ایک مستقل مزاجی ہمیشہ دکھائی کہ’’تاریخ کو تاریخ ہی سمجھا‘‘۔ جس سے کوئی اور سبق حاصل کرے تو کرے…۔
آج سب سے بڑی آزمائش الیکشن کمیشن کی ہے اور مستقبل میں سیاسی استحکام کا انحصار بھی انتخابات میں شفافیت  پر ہے۔آج کا الیکشن کمیشن تو کیا آسمان سے فرشتے اتر کر بھی الیکشن کرائیں تو بھی اس میں نقص نکالنے والے آموجود ہونگے۔
بلاول کی طرف سے کہا گیا کہ میرے ووٹ پر ڈاکہ پڑا تو ایسا پیچھا کروں گا کہ عمران خان کو بھول جائیں گے۔ ویسے کم و بیش ہر پارٹی کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ بلاول کے ووٹ پر ڈاکہ کون ڈال سکتا ہے۔ ان کی طرف سے عمران خان کی کون سی خوبی کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ان سے بڑھ کر کچھ کر گزرنے کا ڈراوا دے رہے ہیں۔ اگر سارا کچھ ویسا ہی کیا جیسا وہ کر چکے ہیں تو خان صاحب کوچاہیے کہ بلاول کی خاطر ساتھ والے کمرے کی صفائی کراکے کمبل جھاڑ کر رکھ لیں۔
آج یوم الیکشن ہے۔ جو پاکستان میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے کہیں کہیں یوم آخرت، یوم محشر بھی بن جاتا ہے۔ سوچیں! ہم کون ہیں؟ مخالفین کون ہیں؟ الیکشن کمیشن والے کون ہیں؟ سب پاکستانی ہیں کوئی بدیشی نہیں کہیں اور سے نہیں آیا۔ ذرا تحمل، تھوڑا حوصلہ ، برداشت۔ آپ اپنی پارٹی کو جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو خود ووٹ کاسٹ کریں اردگرد کے لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کو کہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ نکلیں گے تو آپ کی پارٹی جیت جائے گی۔2009ء میں فرانسیسی صدرسر کوزی نے مسلم خواتین کے نقاب اوڑھنے پر پابندی عائد کر دی۔مسلمان اس پر بڑے برافروختہ ہوئے۔مگر حکومت کے خلاف محاذ نہیں کھولا۔ انتخابات آئے انتخابی مہم میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ سر گرم ہوئے لیکن سر کوزی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا۔ زور اسی پر دیا کہ ووٹ کاسٹ کریں۔ مسلمانوں کو پتہ تھا کس کو ووٹ دینا ہے اور سرکوزی ہار گئے۔ اب انتخابی مہم نہیں چل سکتی۔ ہر پارٹی نے جو تیر مارنا تھا مار لیا۔ ان پارٹیوں کے حامیوں نے وو ٹر کو پولنگ سٹیشن پر لے جانا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ ووٹ کاسٹ کریں گے آپ کی پارٹی کے جیتنے کے امکانات بڑھیں گے۔لہٰذا کوشش کریں زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ کاسٹ کریں۔

مزیدخبریں