ووٹ بارش کے ایک قطرے کی مانند ہے۔ اگر ایک سانپ کے منہ میں جائے تو زہر بن جاتا ہے اور اگر سیپ کے منہ میں جائے تو چمک دارموتی۔ بارش کی ننھی بوندیں قطرہ قطرہ سمندر بناتی ہیںاسی طرح عوام کے ووٹ سے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے ہیں حکومت اور اپوزیشن بنتی ہے ۔ یوں جمہوری عمل میں جمہور کی رائے کی اہمیت سے انکار ہر چند ممکن نہیں ۔ حالات جیسے بھی ہوں ووٹ اہم ہے اور حتمی فیصلہ ووٹ سے ہی ہوتا ہے۔
قومی انتخابات 2018ء میں ٹرن آوٹ 51.99 فیصد تھا جبکہ 2013میں53.6 فی صد، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ مہم میں نوجوانوں پر خاص توجہ اور فوکس کے باوجود ووٹر ٹرن آوٹ کم ہوا۔ انتخابات2024ء میں درپیش حالات ووٹر ٹرن آوٹ کے کم رہنے کی شنید دے رہے ہیں ۔ وجہ ایک بڑی سیاسی پارٹی سے انتخابی نشان اور لیول پلئینگ فیلڈ کا چھن جانا اور اس کے امیدواروں کا آزادحیثیت میں حصہ لینا اور چورسپاہی کے کھیل کا انتخابی دن تک چلتے رہنا ہے۔ بہر حال اس پارٹی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو 2018ء میں ملنے والی خصوصی حمایت کو یاد رکھتے ہوئے الیکشن میں بھر پور حصہ لیتے ہوئے اپنا ووٹ ڈالنا چاہیے ورنہ دوسری پارٹیوں کے لئے تو حالات سازگار اور میدان کھلا ہے ہی۔
ہم نے گذشتہ سالوں میں دیکھا کہ کچھ حلقوں میں امیدوار محض چند ہزار ووٹ لیکر کامیاب ہو گئے۔ ایسا خاص کر قبائلی علاقوں میں ہوا ۔ اس بار بھی روایات اور سیکیورٹی خدشات کے نام پر ’بڑوں‘ نے کچھ علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا ہے حالانکہ ووٹ کے معاملے میں سب برابر ہیں اور ہر کسی کا ایک ووٹ شمار ہو گا ۔ حکومت بننے کے اس عمل میں جتنے زیادہ لوگ حصہ لیں یہ اتنا زیادہ شمولیت اور اجتماعیت پر مشتمل ہو گا۔ ٹرن آوٹ جتنا زیادہ ہو گا فیصلے میں مضبوطی و طاقت زیادہ ہو گی اور قبولیت کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔
اس بندہ خاکسار نے پنجاب میں رجسٹرڈ ووٹروں کے ووٹ ڈالنے کے رویوں اور فیصلوں میں ابلاغ اور ابلاغ عامہ کے عمل دخل پر اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کی ، تھیسیس لکھا اور کئی مقالے شائع کئے۔ صوبے کے 18اضلاع کے دورے کئے ، سروئیرز کی مددلی، ایم فل اور بی ایس کے طلبا کی باقاعدہ تربیت کرکے ان کو فیلڈ میں بھیجا،صحافی دوستوں نے بھی مواد اکٹھا کرنے میں بھرپور مدد کی۔ مواد اکٹھا ہوا تو سافٹ کی مدد سے تجزیہ کیا ۔ تجزے میں دو امریکی پروفیسروں، ایک پاکستانی پروفیسر اور ایک ماہر شماریات کی مدد لی۔ سالوںکی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ووٹ ڈالنے کے ارادے اور فیصلے میں فرق ہو سکتا ہے ۔ لوگ آخری وقت پر بھی اپنا فیصلہ بدل سکتے ہیں، جوں جوں شعور آرہا ہے برادری اور ذات پات کے نام پر ووٹ ڈالنے کا رواج آہستہ سے مگر بدستور کم ہو رہا ہے۔ شہری علاقوں میں یہ روایت تیزی سے دم توڑ رہی ہے جو جمہوریت کے لئے اچھی بات ہے۔ لوگ ایک خاص ترجیحی انداز سے ذاتی مفاد، علاقائی مفاد اور قومی مفاد میں ووٹ ڈالتے ہیں ، زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر مضبوط ووٹر قومی مفاد کو اپنے ووٹ کے فیصلے میں زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کی معاشرے میں جیسے جیسے خواندگی و معاشی خوش حالی ہو گی ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح ملے گی۔ تحقیق سے یہ نتیجہ بھی حاصل ہوا کہ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کے اس جدید دور میںآج بھی ووٹ ڈالنے کے حتمی فیصلے میں لوگ بین الشخصی ابلاغ یعنی خاندان کے افراد، دوستوں، محلے داروں، کام کی جگہ کے ساتھیوں، سیاسی پارٹیوں کے ورکروں اور خود اُمیدواروں سے ہونے والی بات چیت کا‘ اگر ہو سکے تو‘ سب سے زیادہ اثر لیتے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ یوں تو اُمیدوار سب سے زیادہ خرچہ حلقوں میں بینر پوسٹر، فلیکس و دیگر آوٹ ڈور پبلسٹی مٹیریل ، گاڑیوں پر تشہیر وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں مگر اس سے وہ صرف ایک ماحول بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں اس بنیاد پر لوگ ووٹ نہیں ڈالتے۔ اس تحقیق کے اور بھی بے شمار دلچسپ نتائج ہیں ، ٹی وی ، ریڈیو ، اخبارات، فلم، کُتب بینی کا کتنا اثر ہوتا ہے ، اس کا ذکر کسی اور وقت سہی، ان انتخابات میں بھی تحقیق جاری ہے اور مزید نتائج حاصل ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کھولیں تو جلی حروف میں لکھا ہے’آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدار اورشمولیت والے انتخابات‘ ۔یوںتو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے میں بار ہا ہچکچاہٹ ، تاخیری حربے اختیار کئے گئے بالآخر سپریم کورٹ کی مداخلت پر حتمی تاریخ اوربعد از پوچھو نہ کیا کیا ہوا۔ یہ قصے پاکستان اور بیرون ملک زبان زدِ عام ہیں اور سب ریکارڈ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ مگر کسی طرح سے ممکنہ ازالہ اب الیکشن کے دن عوام کے مینڈیٹ کی عزت کافرض عین نبھانا ہے ۔ اب مزید معافی کی گنجائش نہیں۔ الیکشن کمیشن اپنی ساکھ اور اس ملک کی خاطر ہر ووٹ گنے ،اس کا الیکشن مینجمنٹ سسٹم جو بقول چیف الیکشن کمشنر ناقابلِ تسخیر ہے‘ ٹھیک کام کرے اور نتائج تسلیم کئے جائیں گے تو ملک آگے بڑھے گا۔