جمعرات، 27 رجب المرجب ،  1445ھ،8 فروری2024ء

 الیکشن میلہ۔ سج گیا۔ ووٹروں کی پولنگ کیمپوں میں کھابوں سے آئو بھگت .بھر پور ناشتہ
آج صبح جب تک اخبار لوگوں کے ہاتھ تک پہنچے گا اس سے پہلے ہی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں، ورکرز اور ووٹ ڈالنے والوں کے ہاتھ گرما گرم ناشتہ پہنچ گیا ہو گا۔ وہی روایتی رونق میلہ لگے گا۔ کہیں پراٹھے، کہیں حلوہ پوڑی کہیں نان چنے گرما گرم چائے کے ساتھ نوش فرمائی جا رہی ہو گی۔ساتھ ہی کام کے حوالے سے ہدایات بھی دی جا رہی ہونگی۔ گاڑیوں، پک اپ ، چنگ چی رکشوں اور ویگنوں کی تو رات ہی ٹینکیاں فل کرائی جا چکی ہوں گی کہ صبح سے شام تک وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹروں کو لاد کر ان کے گھروں سے دکانوں سے پولنگ سٹیشن تک لائیں اور لے جائیں۔ پولنگ کیمپوں میں دن بھر ووٹروں کی ٹہل سیوا کے لیے چائے اور دوپہر کو کھانے کا بندوبست بھی ہماری روایتی سیاست کا حصہ ہے کیونکہ خالی پیٹ کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔ کوئی عام سیاسی جماعت ہو یا انقلابی پارٹی سب بڑے بڑے مالدار لوگوں کو مہنگے داموں ٹکٹ فروخت کرتی ہیں جو الیکشن کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کر سکیں۔ عام متوسط طبقے کے قابل افراد کو بھی ٹکٹ نہیں دیا جاتا کہ یہ بے چارہ پھوکٹ  ہے ، کیا کرے گا۔ اس کے باوجود عوام دوستی کے نعرے سب لگاتے ہیں۔ 
یوں طاقتور مالدار طبقہ حکمرانی کرتا ہے اور نعرے انقلاب کے اور غریبوں کے لگا کر انہی کا ہی خون نچوڑتا ہے۔ اس وقت بھی کسی سیاسی جماعت کو دیکھ لیں سب نے مالی طور پر مستحکم امیدواروں کو ہی ٹکٹ دئیے ہیں جن کی وجہ سے الیکشن والے دن کیمپوں میں کھانے پینے کا یہ رونق میلہ سجتا ہے اور شام تک خوب جشن منایا جاتا ہے۔ رات کو کیا ہوتا ہے یہ بعد کی بات ہے۔ شہر ہوں یا دیہات آج جگہ جگہ یہ تفریحی میلے لگے ہوں گے اور عام لوگ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔ ووٹروں کو اتنی عزت صرف الیکشن مہم اور الیکشن والے دن ہی ملتی ہے بعد میں سب انہیں ٹھڈا کراتے ہیں۔ 
انٹرنیٹ سروس بند نہیں کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب 
یہی بات وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہی ہے۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے جو ظاہر ہے ایک سیاسی جماعت کی طرف سے پیالی میں طوفان کی طرح اٹھایا گیا ہے کہ الیکشن کے روز دھاندلی کے پروگرام کے تحت انٹرنیٹ سروس بند کی جائے گی تاکہ عوام کو بروقت کہیں سے کسی دھاندلی کی اطلاع نہ ملے اور وہ بروقت ردعمل نہ دے سکیں۔ صرف یہی نہیں سکیورٹی کے حوالے سے بھی ایسا ہی طوفان اٹھایا جا رہا ہے کہ سکیورٹی اہلکار پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعینات ہوں گے جبکہ حکومت نے بارہا اس بارے میں اعلان کیا ہے کہ فوج صرف تھرڈ آپشن کے طور پر الرٹ رہے گی تاکہ ملک دشمن عناصر الیکشن کے دن کوئی گڑبڑ کر کے پرامن الیکشن کو سبوتاژ نہ کر سکیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اہلکار تعینات ہوں گے اندر نہیں۔  ان کی مدد کے لیے اگر ضروری ہوا تو رینجرز موجود ہو گی۔ مگر اس بات کو اتنا اچھالا گیا کہ امریکی حکومت کے ترجمان نے بھی بوکھلا کر بیان دیا ہے کہ انٹرنیٹ سروس کی بندش اور پولنگ سٹیشنوں پر سکیورٹی حکام کی تعیناتی سے اجتناب کیا جائے عوام کو آزادانہ ووٹنگ کا حق دیا جائے۔ یہ اس جماعت کے پراپیگنڈے کا نتیجہ ہے جو امریکہ کی غلامی سے نکلنے کے دعوے کرتی ہے اور ایسے منفی پراپیگنڈے سے امریکہ ہی کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش میں لگی ہے۔ غیرت مند قومیں اپنے ملکی معاملات میں کسی کی مداخلت نہ پسند کرتی ہیں نہ کسی کو اپنے ملکی معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتی ہیں مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے جس سے زخم ملنے کا واویلا کیا جا رہا ہے دوا بھی اسی سے طلب کی جا رہی ہے۔ یہ عجب نیرنگی سیاست ہے۔ یہ تو سراسر
’’تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا‘‘ والی بات ہے۔ 
مودی سرکار نے بلڈوزر سیاست کو نیا ہتھیار بنا لیا 
جی ہاں اب مسلم دشمن بھارتی حکومت نے مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کرنے اور بلڈوزروں کی مدد سے ان کی عمارتیں گرانے جن میں گھر، دکان اور مسجد سب شامل ہیں کا جو نیا گھنائونا طریقہ واردات اپنایا ہے۔ اس پر عالمی (انٹرنیشنل) ایمنسٹی نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام بلڈوزر بنانے بنانے والی عالمی کمپنیوں سے کہا ہے کہ وہ بھارت کو بلڈوزروں کی فروخت بند کر دیں کیونکہ وہ ان کی مدد سے اقلیتوں کیخلاف انسانیت سوز سلوک کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں 10 ہزار سے زیادہ گھر اور دکانیں جلائی جا چکی ہیں اور بھارت میں تومسلمانوں کے ہزاروں گھر، دکانیں، مساجد اور مقابر بلڈوزروں کی مدد سے گرا کر انہیں علاقے سے بیدخل کیا جا رہا ہے جہاں وہ صدیوں سے آباد ہیں۔ یہ سب کچھ مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیا جا رہا ہے اور عالمی برادری خاموش ہے۔ ویسے بھی جو عالمی برادری غزہ کی تباہی اور مکمل بربادی پر اسرائیل کے ہاتھ نہ روک سکی وہ بھلا بھارت کا کیا بگاڑ لے گی جو ان کے لیے ایک بڑی تجارتی منڈی ہے اور اس نے اپنے بھیانک چہرے پر سیکولر ازم اور جمہوریت کا مصنوعی  خوشنما نقاب ڈال کر دنیا کو بے وقوف بنا رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اس وقت گزشتہ 10 برسوں سے مکمل ایک ہندو انتہا پسند ریاست بن چکا ہے۔ جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کی جان مال اور املاک کو جب چاہے ہندو انتہا پسند حکومت کی مدد سے جا کر گرا لیتے ہیں اور ان کے مقدس مقامات پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ان کو مندر یا کمرشل ایریا میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ تباہی مسلم املاک کی ہو رہی ہے جو بھارت میں سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔ اب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بلڈوزر بنانے والوں سے صحیح کہا ہے کہ وہ بھارت کو بلڈوزر فروخت نہ کریں تاکہ بھارتی گھروں کی مسماری کی مکروہ پالیسی بند ہو سکے۔ مگر کیا بھارت اس طرح باز آ جائے گا۔ عالمی برادری اس سوال پر بھی غور کرے۔ وہ سخت ایکشن کے بنا بات نہیں مانے گا۔آزمایش شرط ہے۔

ای پیپر دی نیشن