ووٹ پاکستان کے لیے!!!!

آج آپ نے ووٹ کاسٹ کرنا ہے اور یاد رکھیں یہ ووٹ آپ نے پاکستان کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے کاسٹ کرنا ہے، آپ خود کو کسی سیاسی جماعت کا ورکر سمجھنے کے بجائے پاکستان کا شہری سمجھ کر ووٹ ڈالیں کیونکہ پاکستان کے وجود سے ہی تمام سیاسی جماعتیں ہیں، ہماری حیثیت ہے، ہماری پہچان ہے۔ دنیا میں ہم پاکستانی شہری ہونے سے پہچانے جاتے ہیں، کسی سیاسی جماعت کے کارکن، ووٹر یا حمایتی ہونے سے ہماری پہچان نہیں ہے۔ اس ملک کی عزت ہی ہماری عزت ہے، اس ملک کا سبز ہلالی پرچم سربلند ہو گا تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو گا، ہماری سب سے پہلی محبت ہمارا ملک ہونا چاہیے، ہمیں سب سے زیادہ وفادار اپنے ملک کا رہنا ہے۔ آپ جس سیاسی جماعت کو پسند کرتے ہیں کریں لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ آپ نے اپنے ووٹ کے ذریعے پانچ سال تک اپنے فیصلوں کا اختیار کسی اور کو دینا ہے، یہ سوچ کر ووٹ پر مہر لگائیں، جس پر اعتماد کریں گے پھر اس کو برداشت بھی کرنا پڑے گا۔ یاد رکھیں ووٹ صرف پاکستان کے لیے ہونا چاہیے، ووٹ کا مقصد پاکستان کی بہتری ہونا چاہیے، ووٹ کا مقصد کسی کی تضحیک یا تذلیل نہیں ہے ووٹ کا مقصد تعمیر ہے۔ ہم نے اپنے ووٹ سے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہ ملک ہمارا ہے اور ہم سب نے مل کر اس کی حفاظت کرنی ہے، ملک دشمنوں کو انجام تک پہنچانا ہے، ملک میں عدم برداشت کی حوصلہ شکنی کرنی ہے، تحمل مزاجی اور برداشت کو فرغ دینا ہے، نفرت کا خاتمہ کرنا ہے، محبت کو عام کرنا ہے، خوش اخلاقی کو پھیلانا ہے بداخلاقی کے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہے۔ آج ہمیں اپنے ذاتی اختلافات، پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلہ پاکستان کے لیے کرنا ہے یعنی ہم نے ووٹ پاکستان کے لیے کرنا ہے۔
بدقسمتی ہے کہ ملک کی نمایاں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اپنی انتخابی مہم کے دوران نفرت کے بیانیے کو پروان چڑھایا ہے، نفرت کو عام کیا ہے، انتقام یا بدلے کے پیغام کو عام کر کے ووٹرز کے جذبات کو بھڑکایا ہے اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ آج ووٹرز تحمل مزاجی کا مظاہرہ کریں گے۔ اس لیے قارئین نوائے وقت تک یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے آپ جہاں بھی ہیں، کسی بھی سیاسی جماعت کے حامی ہے، کسی سے سیاسی اختلاف رکھتے ہیں، کسی سیاسی جماعت کو پسند کرتے ہیں، کسی سیاسی جماعت کو ناپسند کرتے ہیں ہر حال میں آپ نے ایک محب وطن اور پرامن پاکستانی شہری ہونے کو ترجیح دینی ہے۔ پاکستان کو امن کی ضرورت ہے، پاکستان کو محبت اور اتحاد کی ضرورت ہے اور یہ کام ہم سب مل کر ہی کریں گے۔
عام انتخابات سے ایک روز قبل ملک کے مختلف حصوں میں دہشتگردوں نے پاکستان کے امن کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال حاجی لیمو گوٹھ میں ہونے والے دھماکے میں تین افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق دھماکے میں خاتون اور بچے سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ پولیس کے مطابق ملزم گرنیڈ لے کر باہر نکل رہا تھا کہ گرنیڈ اس کے ہاتھ میں ہی پھٹ گیا۔ گذشتہ روزبلوچستان کے دو اضلاع میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکوں کے نتیجے میں بھی مجموعی طور پر اٹھائیس افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ضلع پشین کے علاقے خانوزئی میں ہونے والے دھماکے میں سولہ افراد جاں بحق ہوئے جب کہ قلعہ سیف اللہ میں جمعیت علمائے اسلام کے دفتر کے باہر ہونے والے دھماکے میں بارہ افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ ان دھماکوں سے واضح پیغام ہے کہ دشمن ہر وقت پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں رہتا ہے۔ ان دھماکوں کے ساتھ ساتھ چمن سے کوئٹہ جاتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ کی گاڑی پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا ہے۔ حافظ حمد اللہ کے محافظوں کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہو گئے۔ ان واقعات کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا اور لوگوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھانا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے افواج پاکستان کے افسران و جوان موسمی سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے ناصرف وطن دشمنوں کو انجام تک پہنچا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دفاع وطن کی خاطر قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کر رہے ہیں۔ آج بھی ملک کے مختلف حصوں میں امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہیں لگ بھگ سترہ ہزار پولنگ سٹیشنز کو انتہائی حساس قرار دیا جا چکا ہے جب کہ تیس ہزار پولنگ سٹیشنز کو حساس کا درجہ دیا گیا ہے۔ اللہ کرے کہ آج کا امن و امان کے ساتھ گذرے ملک میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے، ملک بارود کی بدبو سے محفوظ رہے اور پاکستان دشمنوں کو ہر محاذ پر شکست ہو۔
آج ہم نے اپنے ووٹ کے ذریعے ملک کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ایمانداری سے اور دماغ کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔ 
آخر میں عباس تابش کا کلام
شعر  لکھنے  کا   فائدہ   کیا    ہے
اْس  سے  کہنے  کو  اب  رہا  کیا ہے
پہلے   سے   طے   شدہ  محبت میں
تْو    بتا    تیرا    مشورہ  کیا   ہے
سرخ  کیوں  ہو رہے  ہیں تیرے کان
میں  نے  تجھ سے ابھی کہا کیا  ہے
آنکھیں مَل مَل کے دیکھتا ہوں اْسے
دوپہر  میں  یہ  چاند  سا  کیا   ہے
میرا    ہم    عصر    صبح    کا   تارا
میرے   بارے   میں   جانتا  کیا   ہے
سوچتے    ہونٹ، بولتی     آنکھیں
حیرتی     کا    مکالمہ      کیا     ہے
شور  سا   اْٹھ  رہا   ہے  چار   طرف
کچھ   گِرا   ہے  مگر     گِرا  کیا   ہے
میں   یہاں   سے   پلٹنا   چاہتا  ہوں
اے   خْدا    تیرا    مشورہ   کیا   ہے
جسم  کے  اس  طرف  ہے  گْل  آباد
پھاند    دیوار،    دیکھتا    کیا    ہے
میری  خود  سے  مفاہمت  نہ  ہوئی
تْو     بتا    تیرا    مسئلہ    کیا    ہے
اس  لیے   بولنے   پہ   ہوں   مجبور
آپ   سوچیں   گے  سوچتا   کیا  ہے
یہ    بہت    دیر   میں   ہوا   معلوم
عشق   کیا   ہے    مغالطہ    کیا   ہے
میں  تو عادی  ہوں خاک چھاننے کا
تْم    بتاؤ    کہ    ڈھونڈنا   کیا   ہے
عشق  کر  کے بھی  کھل  نہیں  پایا
تیرا      میرا     معاملہ     کیا     ہے
میں   بنا  تھا   کھنکتی   مٹی   سے
میرے   اندر   سکوت  سا   کیا    ہے

ای پیپر دی نیشن