حضرت معقلؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ”جس والی نے اپنی رعیت کے حقوق غصب کئے اور اسی حالت میں مر گیا اس پر جنت حرام ہے اور جو حکمران خیر خواہی کے ساتھ اپنی رعایا کی نگہبانی نہیں کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پا سکے گا۔“ (بخاری/ کتاب الاحکام) رسول اللہﷺ نے بنو اسد کے ایک شخص کو زکوٰة کا عامل مقرر فرمایا تھا جب وہ زکوٰة کا مال لے کر واپس آیا تو اس نے کہا ”یہ مال آپﷺ (بیت المال) کا ہے اور یہ اتنا مال مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے یہ میرا ہے“ اس کی بات سن کر اللہ کے رسولﷺ نے مسجد نبوی میں خطبہ دیا اور فرمایا ”اس عامل کا حال دیکھو جسے ہم نے بھیجا تھا اور واپس آکر یہ کہتا ہے کہ یہ مال آپ کے لئے ہے اور یہ میرے لئے ہے اگر یہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بیٹھا رہتا (عامل نہ بنایا گیا ہوتا) تو یہ اس تحفے کا انتظار کر سکتا تھا کہ کوئی دیتا ہے یا نہیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کسی نے کوئی چیز رکھ لی تو قیامت کے روز اسے وہ چیز اپنی گردن پر اٹھا کر پیش کرنا پڑے گی اگر وہ اونٹ ہوگا تو بلبلا رہا ہوگا اگر گائے ہوگی تو ڈکرا رہی ہوگی بکری ہوگی تو ممیا رہی ہوگی“ اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے اپنا دست مبارک بلند کر کے تین مرتبہ پوچھا، کیا میں نے اللہ کا حکم پہنچا دیا ہے؟۔ (بخاری/ کتاب الاحکام) کیا رہنمائی ہے اللہ کے رسول کے اس فرمان اور عمل میں، کسی بھی مسلمان حاکم کے لئے؟ ہاں مسلمان حاکم کے لئے ؟۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کے حکمرانوں کے لئے بھی ہے کوئی رہنمائی اس میں ؟۔پاکستان کی پارلیمنٹ میں کسی قائمہ کمیٹی کو کچھ عرصہ پہلے بتایا گیا تھا کہ ہمارے صدر مکرم کو ان کے بیرونی دوروں کے دوران تین عدد بلٹ پروف گاڑیاں تحفہ میں دی گئی تھیں ان گاڑیوں کی اپنے زیر حکمرانی عمال سے قیمت لگوا کر اس قیمت کا پندرہ فیصد روپیہ ملک کے بیت المال میں جمع کروا کر وہ گاڑیاں صدر مملکت نے اپنے ملکیت بنا لی ہیں اس صدر آصف علی زرداری نے جو دنیا کے چند امیر ترین افراد میں سے ہیں۔ پاکستان میں سب سے مالدار ہیں۔ اس مقروض ملک اور قوم نے انہیں کئی بلٹ پروف گاڑیاں خرید کر دی ہوئی ہیں یا اس سے انہوں نے لی ہوئی ہیں اپنی بی بی جی کے فلاحی این آر او کی قوت سے۔ صدر مکرم وہ تین عدد بلٹ پروف گاڑیاں کیا کریں گے جو دینے والوں نے پاکستان کے صدر کو دی تھیں؟ کیا روز قیامت وہ اتنی بھاری تین بلٹ پروف گاڑیاں اٹھا سکیں گے؟ اللہ کے رسولﷺ کا فرمان تو یہی ہے۔ یا سید یوسف رضا گیلانی اور صدر مکرم کے نو دو گیارہ قسم کے حاضر سروس رتن صاحبان اس روز بھی یہ بھار اٹھانے میں ان کا ساتھ دیں گے؟ اس ملک کے عوام کے منتخب قسم کے رتن صاحبان نے اگر انہیں ملک کا صدر منتخب نہ کیا ہوتا اور وہ کسی بلاول ہاﺅس یا سرے محل میں ہی مقیم ہوتے تو دینے والے انہیں ایسے قیمتی تحفے دے سکتے تھے؟ آخر صدر مکرم کی نظریں بھرتی کیوں نہیں؟ بتایا گیا کہ یہ پہلے سے روایت یا دستور چلا آ رہا ہے ایوب خاں کے وقت سے۔ حکمران صرف پندرہ فیصد ادائیگی کرکے پاکستان کو ملنے والے تحفے اپنی جیب میں ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر ایسا قانون ان جابر حکمرانوں نے اس ملک اور قوم کی جیب کاٹنے کے لئے بنوا بھی لیا ہوا ہے اپنی خادم پارلیمنٹوں سے۔ تو بھی یہ تو فرمان رسولﷺ کے خلاف ہے۔ کیا نہیں ایسا قانون فرمان رسولﷺ کے خلاف۔ صدر آصف علی زرداری، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کی وراثتی گدی کے نشین ہیں اگر پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی اس ملک اور قوم کو دئیے گئے تحائف اپنے گھر ہی لے جاتے رہے ہیں تو کیا اللہ کے رسولﷺ کی سنت پر عمل مقدم ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں کے لئے۔ یا اپنی وراثتی روایت کی پابندی زیادہ اہم ہے؟ کیا ایسی زیادتی اور غریب عوام کی جیب صاف کر دینے کی روایت اور حکمرانوں کا بنوایا قانون زیادہ اہم ہے یا اللہ اور اس کے رسولﷺ کا فرمان زیادہ اہم ہے؟ کیا پارلیمنٹ اور اس کی قائمہ کمیٹی بتائے گی کہ اس جیب کتری کے قانون کے بعد سے کس حکمران نے کتنے اور کون کون سے تحائف پر ہاتھ صاف کیا تھا اور ان کی مالیت کتنی ہوتی تھی؟ حضرت اور مولانا فضل الرحمن کا خاندان ایوب خاں کی جمہوریت کے وقت سے اس قوم کی دین و دنیا کی فلاح کے لئے سر اور دھڑ گرم چلا آ رہا ہے کیا وہ بتائیں گے اپنے صدر مکرم کو کہ یہ روایت تو اللہ کے حکم کے خلاف ہے؟ کیا اس غیر اسلامی قانون کو ختم کرانے کے لئے وہ کوئی بل پیش کریں گے اسمبلی میں؟ لارڈ کلائیو برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانیہ کی حکمرانی کے قیام کا بنیادی کردار تھا اس کی اسی خدمات کے بدلے میں ہی اسے لارڈ بنایا گیا تھا لیکن جب برطانیہ کی پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ وہ کلائیو تو ہندوستانی راجوں مہاراجوں کو دئیے تحائف میں سے کچھ چرا لیا کرتا تھا تو اسی پارلیمنٹ نے اسے سخت ترین سزا دینے کی قرارداد منظور کی تھی اور وہ رسوا ہو کر مرا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے وقت بھی کمپنی کا کوئی اہلکار کوئی تحفہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتا تھا۔ ہم اسلامی بھی ہیں اور اسی پارلیمانی جمہوریت کے بھی دعویدار ہیں جو برطانیہ میں ہے تو پھر ہمارے حکمرانوں نے اسلام کے احکامات اور اس جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کے منافی ایسا رویہ کیوں اپنایا ہوا ہے؟ ان کی بھوک ہے کہ جاتی ہی نہیں۔ کیا حضرت اور مولانا کریں گے اپنی اسلامی جمہوریت کی کوئی مزید خدمت ایسی قانونی جیب کتری کا خاتمہ کروا کر؟