خوف کے بادل ہر اس سیاستدان پر چھائے ہوئے نظر آتے ہیں جو آنے والے انتخابات میں اپنی سابقہ روایات کے تحت تخت پاکستان پر برا جمان ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں، طاہرالقادری کی آمد اور اس پر ان کی تقاریر اور مطالبات نے پاکستان کے اندر سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل مچاکررکھ دی ہے، 14 جنوری کے دھرنے کا سن کرحکومت اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں اور مختلف انداز میں اس مارچ کو روکنے کے لیے اور اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے پارٹی میٹنگ بیان بازی اور14 جنوری کے مارچ کو غیر آ ئینی اورغیر قانونی قراردیاجارہاہے ،طاہرالقادری کے پیچھے خفیہ ہاتھ ، وہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے آئے ہیںاس تحریک کے مقاصدفوج کو برسراقتدار لاناہے امریکہ اوربرطانیہ اس کی مدد کررہاہے پیسہ کہاں سے آیا، غرض طاہرالقادری صاحب کی کردارکشی کرنے میں بھی ہرطرح سے کوشش کی جارہی ہے ہر ٹی وی چینل اور ہر اینکر پرسن اپنی حیثیت کے مطابق 14 جنوری والے مارچ کو حرام قرار دینے کی پوری کوشش کررہا ہے جب سے ایم کیو ایم نے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی طاہر القادری صاحب کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے تو انہیں رام کرنے کیلے ہر طرح سے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں مگر یہ کوششیں بار آور ثابت ہوتی نظر نہیں آتیں اگر کسی صورت ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کی بات مان بھی جاتی ہے تب بھی طاہر القادری اس مارچ کو ختم نہیں کرینگے کیونکہ یہ انکی زندگی کا آخری موقع ہو گا جس میں وہ ہیرو یا زیرو بن سکتے ہیں لہذٰا وہ زیرو ہونے کیلئے تو یہ سب کچھ نہیں کر رہے جو باتیں انہوں نے اپنی مینار پاکستان والی تقریر میں کی ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ وہ سب ٹھیک ہیں میں نہ تو انکی پارٹی سے تعلق رکھتا ہوں نہ ہی ان کا فین ہوں مگر سچ کو سچ کہنا ہی میرا وطیرہ ہے پاکستانی عوام موجودہ حکومتوں خواہ وہ صوبائی ہوں یا مرکزی سے تنگ آ چکے ہیں کیونکہ حکمران عوام کی تکلیف کو دور کرنے کے بجائے اپنی مدت میں ہزاروں فیصد اضافہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
اگر یہی انداز حکمرانی جاری رہتا ہے تو آنے والے حکمران بھی یہی لوگ ہونگے کیونکہ انداز چناﺅ ہمارے ہاں اتنا برا اور بھونڈا ہے جسکی مثال نہیں ملتی اس طرح کے چناﺅ سے نہ توکوئی شریف آدمی الیکشن لڑسکتا ہے اور نہ جیت سکتا ہے میں طاہرالقادری صاحب کے ساتھ سو فیصد اتفاق کرتاہوں میرا خیال ہے جواصلاحات وہ چاہتے ہیں میں ان میں مزیدا یسی اصلاحات کر وانے کا خواہشمند ہوں جس سے صحیح صاف اور نیک سیاست دان میدان میں آئیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو باتیں طاہر القادری صاحب نے کی ہیں وہ کوئی غلط نہیں سب چور ان کیخلاف اکٹھے ہوتے جارہے ہیں اور ان کی چیخ و پکار نے عوام کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے سچ سے لڑنے کے لیے کمریں کس لی ہیںچور مچائے شورکیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی چوریوں اور ڈاکو کا سلسلہ بند ہووہ جمہوریت کے نام پر عوام کے حقوق پر ڈاکہ پے ڈاکہ ڈالے جارہے ہیں۔آئین اور قانون عوام کو حقوق اور انصاف مہیا کرنے کیلئے وضع کیے جاتے ہیں ہمارے حکمران ان تمام شقوں کو بھول جاتے ہیں جسمیں عوام کے حقوق کی بات ہو اور جو شق بدیانت لوگوں کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ ہو انہیں صرف اور صرف آئین کی پاسداری اپنی حکومت کو قائم کرنے تک ہی عزیز ہوتی ہے۔عوام تو ان کیلئے بھیڑ بکریاں ہیں جب چاہیں ہانک دیں۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہوا کرتی ہے اب وقت آ پہنچا ہے کہ عوام کا ہاتھ ایسے حکمرانوں کے گریبانوںتک ہو گا جو عوام کی فلاح کی بجائے اپنی تشہیر کیلئے کروڑوں روپے حکومتی خزانے سے استعمال کرتے ہیں۔ عوام کے پیسے سے خریدے گئے لیپ ٹاپس بانٹ کر کروڑوں روپے کی اشتہاری مہم کیا ظلم نہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں قانون سویا ہوا ہے سندھ کی ترقی کی اشتہاری مہم پر جو رقم خرچ کی گئی ہے اگر وہ پیسہ بجلی بنانے پر لگایا جاتا تو بند انڈسٹری چلتی اور غریب کو روزگار ملتا۔ مگر بے شرم حکمرانوں کو کو اپنی خرافات سے آگے کی سوچ ہی نہیں۔ 2008ءکا الیکشن میں نے بھی لڑا تھا اس الیکشن میںجس انداز میں دھندلی ہوئی وہ میں نے دیکھی تھی اسکے بعد میں نے اپنے چند کالموں میں اسکا تفصیلی ذکر بھی کیا مگر آج جو بات میں کرنے جارہا ہوں طاہر القادری صاحب کیلئے میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے مطالبات میںمیرا یہ مشورہ بھی شامل کرلیں میرے نزدیک یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کے بغیر میں نہیں سمجھتا کہ الیکشن شفاف ہونگے۔ شفاف الیکشن کیلئے فوج کا جوان پولنگ سٹیشن پر تعینات کرنا بالکل ناکافی ہوگا۔ اس سے بہتر ہے کہ یہ تکلف نہ کیا جائے کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا اسکا ہونا 1%سے زیادہ فائدہ مند نہیں۔ شفاف انتخاب کیلئے ضروری ہے کہ پریزائڈنگ آفسر سے لے کر پولنگ آفیسر تک فوجی آفیسر لگائے جائیں، عدلیہ کو انتخاب سے دور رکھا جائے ضروری نہیں کہ پورے پاکستان میں ایک دن ہی الیکشن کرادیئے جائیں مگر یہ ضروری ہے کہ مکمل طورپر الیکشن فوج کی زیرنگرانی کروائے جائیں، کاغذات نامزدگی الیکشن سے 3ماہ پہلے جمع کروائے جائیں تاکہ الیکشن کمیشن یہ جانچ سکے کہ امیدوار آئین کی تمام شقووں پر پورا اترتاہے یا نہیں؟ کاغذات نامزدگی کے ساتھ انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروانا ضروری قرار دیا جائے اور ریٹرننگ آفیسر کو اختیارات دیئے جائیں کہ جو امیدوار زیادہ پیسہ خرچ کرئے اسے الیکشن لڑنے کا نااہل قرار دے سکے۔ ایسی بہت سی تجاویز میر ے ذہن میں ہیں جس کا ذکر بعد میں کسی کالم میں ضرور کرونگا۔ یہ باتیں طاہر القادری صاحب کے ساتھ اتفاق کرئے ہوئے اپنی رائے کی گرہ لگانا ضروری سمجھتا تھا۔میری دعا ہے کہ اللہ میرے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور چوروںسے نجات دے خواہ وہ کسی کے ساتھ سے بھی ممکن ہو۔
فوج کے بغیر شفاف انتخابات ناممکن
Jan 08, 2013