سیاست زندہ باد !


شیخ الاسلام حضرت علامہ طاہر القادری نے اگرچہ سیاست کو نظر انداز کرتے ہوئے نعرہ ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کا بلند کر رکھا ہے لیکن اس وقت ان کے فرمودات ، ارشادات، کمالات اور مطالبات کے نتیجے میں ریاست نشانہ بنی ہوئی ہے اور ڈنکا سیاست کا بج رہا ہے۔ ملکی سیاست میں آنجناب نے ایک بھونچال کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ ہر طرف انکا تذکرہ ہی نہیں ہورہا بلکہ آئندہ ملکی سیاست میں حضرت کے کردار، مقام اور حیثیت کے بارے میں دور کی کوڑیاں بھی لائی جارہی ہیں۔ میڈیا سے لے کر حکومتی ایوانوں ، سیاسی جماعتوں کے اجلاسوں، سیاستدانوں کے دستر خوانوں اور عوامی حلقوں میں سب سے مرغوب اور پسندیدہ موضوع حضرت شیخ الاسلام کی بزرگ اور معتبر شخصیت کے فرمودات ، ارشادات، تحکمات اور ذاتی اعمال و افعال کے تضادات بنے ہوئے ہیں۔ اور اسکے ساتھ حضرت کا 14جنوری کا لانگ مارچ ہے جس کے بارے میں شکوک و شبہات ،خدشات اور تحفظات کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام نے 23دسمبر کے لاہور میں منعقدہ اپنے عوامی استقبال کے فقیدالمثال مظاہرے میں ملکی نظام سیاست بالخصوص نظام انتخابات کے حوالے سے جن خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کی اور بعد میں میڈیا پرسنز سے اپنی گفتگوﺅں ، ٹی وی چینلز پر اپنے انٹرویوز اور کراچی میں ایم کیو ایم کے جلسے میں خطاب کے دوران ملکی سیاست میں موجودہ گند کا جو ذکر کیا ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرتا لیکن اس کے لئے حضرت جو لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں وہ نہ صرف دھمکی آمیز ، آئین اور قانون کی شقوں سے متصادم بلکہ تضادات سے بھی بھرا ہو اہے ۔ حضرت ایک سانس میں نگران حکومت کے قیام کے لئے فوج ، عدلیہ اور تمام سٹیک ہولڈر سے مشورہ کی بات کرتے ہیں تو دوسرے سانس میں وہ سیاست میں فوج کے کردار کو ختم کرنے کی بات کرنے لگتے ہیں۔ اسی طرح حضرت ایک طرف انتخابی نظام میں موجود خرابیوں کی اصلاح کے لئے انتخابات سے قبل کرپشن ، بدعنوانی، لوٹ مار اور بددیانتی میں ملوث افراد کے احتساب اور انکے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی اور آئین کی دفعات 62اور63کے تحت انتخابی امیدواروں کے لئے امانت ، دیانت اور راست گوئی کے معیار پر پورا اترنے کے بظاہر خوش کن لیکن مبہم اور غیر معینہ مدت تک ٹھوس عملی شکل اختیار نہ کرسکنے والے مطالبات کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ انتخابات کو ملتوی کروانا نہیں چاہتے۔ غرضیکہ حضرت کے ارشادات اور فرمودات ابہام ، تضادات اور دھمکیوں سے بھرے پڑے ہیں اور انکے بارے میں خدشات ، تحفظات اور شکوک و شبہات کا پیداہونا فطری بات ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت شیخ الاسلام کی شخصیت شروع سے متضاد تصورات اور مصنوعی چکا چوند کا ایک مجموعہ رہی ہے۔ ایک عالم دین اور مبلغ اسلام کے طور پر آپ جہاں اپنی بے پناہ مقررانہ اور خطیبانہ صلاحیتوں ، خوش کن بشارتوں ، حسین خوابوں اور مسحور کن کرامتوں کی بنا پر اپنے عقیدت مندوں کی دلوں کی دھڑکن بننے اور ایک مخصوص مسلک کے خاص حلقوں میں اپنا نام اور مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ وہاں سیاسی میدان میں بلند بانگ دعووں ، اونچے نعروں اور رائج الوقت سیاست کے ہر طرح کے داﺅ پیچ آزمانے کے باوجود کبھی بھی کوئی نمایاں مقام حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو انتخابات میں ہر بار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔ اسی اور نوے کی دھائیوں میں وہ اسی صورتحال سے دوچار رہے ہیں۔ تاہم اکتوبر1999میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تو گویا حضرت کی لاٹری نکل آئی انہوں نے کھل کر جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی کہ اس طرح شائد انہیں اقتدار کی اونچی منزلوں تک رسائی حاصل ہوجائے ۔ 2002کے پرویز مشرف کے رسوائے زمانہ ریفرنڈم کی حمایت میں بھی انہوں نے اپنی خطیبانہ صلاحیتوں کے خوب جوہر آزمائے لیکن وائے قسمت کے اقتدار کا ہما ان کے سر پر نا بیٹھ سکا۔
اکتوبر2002کے عام انتخابات میں انکی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو حسب سابق بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ خود لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انکو امید تھی کہ جنرل پرویز مشرف کی مسلسل حمایت کے صلے میں انہیں حکومت میں شامل کرلیا جائے گا۔ لیکن انکی یہ امید تشنہ تکمیل رہی اور وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے عازم کینڈا ہوگئے اور ملکہ کی وفاداری کا حلف اٹھا کر کینڈا کی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اس طرح گزشتہ چھ سات برسوں میں وہ عملی سیاست ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کو درپیش انتہائی تکلیف دہ اور پیچیدہ صورتحال اور مشکل اور پریشان کن معاملات و مسائل میں بالکل ہی لا تعلق رہے۔
چند ماہ قبل انہوں نے ویڈیو کانفرنسوں کے ذریعے ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کا نعرہ بلند کیا اور پھر ایک زبردست اور محیر العقول تشہیری مہم کے جلو میں لاہور میں جلوہ افروز ہوئے اور 23دسمبر کو مینار پاکستان پر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے سیاسی اور انتخابی نظام میں اصلاحات کے لئے دس جنوری کی ڈیڈ لائن دی اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی کہ اگر مقررہ تاریخ تک انکے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ چودہ جنوری کو چالیس لاکھ افراد کے ہمراہ لانگ مارچ کرتے ہوئے شاہراہ دستور اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔ اور مطالبات کے پورے ہونے تک انکا یہ دھرنا جاری رہے گا۔
حضرت شیخ الاسلام کا لانگ مارچ اور دھرنا کیا شکل اخیتار کرتا ہے اس بارے میں صورتحال جلد ہی واضح ہوجائے گی۔ لیکن آپ کے کینڈا سے پاکستان ورود مسعود اور اب تک کی پیش رفت کے حوالے سے چند پہلو ایسے ہیں جو قابل غور ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مینار پاکستان پر حضرت شیخ الاسلام کا جلسہ ملکی تاریخ کے بڑے جلسوں میں سے ایک تھا ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا حضرت شیخ الاسلام کے ارشادات اور فرمودات سننے کے لئے جمع ہوجانا یقینا حیران کن ہے۔ اسکی یہ توجہیہ کی جاسکتی ہے کے لوگ موجودہ گلے سڑے سیاسی نظام اور دو پارٹیوں کی باری کی سیاست سے نفرت کے اظہار کے لئے گھروں سے نکل آئے تھے اور وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔
مرکز میں حکمران پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار دو بڑی پارٹیوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کی طرف سے حضرت شیخ الاسلام کے موقف کی تائید اور انکے ساتھ اظہار یکجہتی بالخصوص ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرف سے حضرت کی پرجوش حمایت اور ایم کیو ایم کے اعلیٰ اختیارات کے حامل وفد کی مینار پاکستان کے جلسہ میں شرکت اور پھر جوابی طور پر حضرت شیخ الاسلام کی ایم کیو ایم کے کراچی کے جلسہ عام میں شرکت اور خطاب وغیرہ ایسے معاملات ہیں جو محض اتفاق قرار نہیں دیے جاسکتے ۔ یقینا ان کے پیچھے کچھ قوتوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔ مان لیا کے حضرت شیخ الاسلام کی ذات مرجع خلائق ہے اور بہت سارے لوگ ان کے فیوض و برکات اور انکی کرامتوں ، بشارتوں اور شہادتوں کی کرشمہ سازیوں کے قائل ہیں ۔ یہ بھی ماننے میں کوئی ہرج نہیں کے حضرت کے پاس اپنی تشہیری مہم کے لئے بے پناہ وسائل ہیں لیکن اسکے ساتھ یہ ماننا پ©ڑتا ہے کہ حضرت کی حیثیت ایک ایسے شخص کی ہے جو چھ سات سال وطن سے دور رہا ہے جس نے غیر ملکی شہریت اختیار کر رکھی ہے اور ملک میں اسکی سیاسی جماعت کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں لیکن اس سب کے باوجود انکی ایسی زبردست پذیرائی اور انکا دھمکی آمیز انداز گفتگو یقینا ایسی بات ہے جو اپنے اندر کئی اسرار اور رموز سمیٹے ہوئے ہے۔ یہ اسرار و رموز کیا ہیں میا ں نواز شریف نے کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد ان سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کے یہ سب کھیل تماشہ مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کی کوششیں ہیں چند ہزار افراد کو اٹھارہ کروڑ عوام کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
میاں نواز شریف کی بات دل کو لگتی ہے یقینا یہ مسلم لیگ ن کا راستہ روکنے کی کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کی اتحادی اور مسلم لیگ ن کی مخالف جماعتوں ایم کیو ایم اور پاکستان مسلم لیگ ق کا حضرت شیخ الاسلام کی پرجوش حمایت کا اعلان اور خود پیپلز پارٹی کا ایک خاص لیول تک چپ سادھے رکھنا اس بات کی دلالت کرتے ہیں کے پہلے جس طرح عمران خان کو مسلم لیگ ن کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی اور انکے غبارے میں خوب ہوا بھری گئی لیکن عمران خان کی اپنی حماقتوں کی وجہ سے انکے غبارے سے ہوا نکل گئی تو اب حضرت شیخ الاسلام کو آگے لایا گیا ہے کے وہ مسلم لیگ ن جس کی آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بڑے امکانات موجود ہیں کے راستے میں رکاوٹ بنیں اور رنگ میں بھنگ ڈالیں۔ حضرت شیخ الاسلام کو یہ رول مبارک۔۔۔۔۔۔ سیاست زندہ باد!

ای پیپر دی نیشن