جب ان کے مطالبے پر مجیب الرحمن کو رہا کر دیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا عبدالحمید بھاشانی نے کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا۔ جس کی وجہ سے اصلاح احوال نہ ہو سکی۔ اور بالآخر جنرل یحییٰ خان نے مارشل لاءلگا دیا۔ شیخ مجیب الرحمن اپنے 6 نکاتی پر ڈٹے رہے اس کے باوجود 1970ءکے عام انتخابات میں انکو بھی حصہ لینے کی اجازت دے دی گئی جس کا کوئی جواز نہ تھا۔ 6 نکات جو بھارت کے ایماءپر تیار کئے گئے تھے بنگالیوں کی آواز بن گئے۔ انتخابی مہم کے دوران ہی بنگلہ دیش کا پرچار کیا جانے لگا۔ عام انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 162 نشستیں حاصل کیں اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے صرف 86 نشستیں حاصل کیں۔ انتخابات کے نتائج حکومت اور سیاسی جماعتوں کیلئے حیران کن تھے ملک سیاسی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو گیا مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کو سندھ اور پنجاب میں بھاری کامیابی حاصل ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں مکمل طور پر عوامی لیگ قابض تھی جبکہ سرحد اور بلوچستان پر نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماءاسلام اپنا سکہ جمائے ہوئے تھی۔ مجیب الرحمن نے اپنی اکثریت کی بنیاد پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان‘ ذوالفقار علی بھٹو کے مشورے پر چلتے ہوئے لحت و لعل سے کام لیتے رہے اور اجلاس منعقد نہ کیا۔
مجیب الرحمن نے یکطرفہ طور پر ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کرنے والوں کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان کر دیا کہ ادھر ہم اور ادھر تم۔ بھٹو کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہو گئی۔ (ISI ڈھاکہ آفس) اور دیگر انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹوں میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ اگر حکومت نے انتقال اقتدار کے مرحلے کو جلد مکمل نہ کیا تو صورتحال بہت زیادہ بگڑ جائیگی۔ شیخ مجیب الرحمن پر عوام کا دباﺅ بہت زیادہ بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ اعلان آزادی کر دیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی اکثریت کو تسلیم کر لیا جاتا اور بروقت اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا جاتا تو حالات پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ جب مجیب الرحمن کو گرفتار کر کے کراچی لایا گیا میں اس وقت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی کی رہائش گاہ کراچی پر ان سے ملاقات کر رہا تھا۔ انہوں نے نہایت ہی دکھ بھرے لہجے میں مجھ سے کہا کہ بیٹا اب پاکستان کو ٹوٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ان ظالموں نے قائداعظم کے پاکستان کے ساتھ بہت بڑا کھلواڑ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا بیڑا غرق کرے۔ اس انتشار کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بھارت نے تربیت یافتہ مکتی بانیوں کو تخریبی سرگرمیوں کیلئے پورے مشرقی پاکستان میں منظم طریقے سے پھیلا دیا۔ جلسے جلوس آتش زنی لوٹ مار کے واقعات رونما ہوئے یہاں تک کہ ڈھاکہ میں کرفیو لگانا پڑا۔ اردو بولنے والوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا بھارتی مکتی بانیوں نے جو پاکستان کی فوج کی وردیوں میں ملبوس تھے عورتوں کی عصمت دری اور انسانیت سوز حرکات شروع کر دیں۔ جس کی وجہ سے بنگالیوں کی نفرت میں مزید اضافہ ہو گیا اور انہوں نے اپنے ہی فوجیوں کی گردنیں کاٹنا شروع کر دیں۔ ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے باقاعدہ 1971ءکی جنگ چھیڑ دی۔ بھارت کی پشت پر امریکہ‘ روس‘ مغربی ممالک اور اسلام دشمن قوتیں موجود تھیں اور ہر طرح کا تعاون کر رہی تھیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنگ بند کرنے کیلئے اجلاس منعقد کیا اور اس اجلاس میں پولینڈ نے ایک قرارداد پیش کی جس کے ذریعے بھارت سے یہ کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں مشرقی پاکستان سے نکال لے اور پاکستانی افواج بھی بیرکوں میں واپس چلی جائیں اور مشرقی اور مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت مل بیٹھ کر اس کا سیاسی حل تلاش کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہمارا وقت ضائع کیا جا رہا ہے اور پولینڈ کی قرارداد کو تار تار کر دیا۔ اگر وہ یہ حرکت نہ کرتے تو پولینڈ کی قرارداد منظور ہو جاتی اور اس کا کوئی سیاسی حل نکل آتا۔ وہ نیو یارک سے واپس وطن آتے ہوئے فلو کا بہانہ بنا کر ایران میں رک گئے جو اس وقت امریکی CIA کا ایشین ہیڈ کوارٹر تھا اور جب تک مشرقی پاکستان میں پاکستانی افواج کے سربراہ اے کے نیازی نے بھارتی افواج کے سربراہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈال دئیے تب تک وہ ایران میں ہی رکے رہے۔ ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں ایوب خان سے غلطیاں ہوئیں وہاں دیگر سیاستدانوں نے بھی اپنا وہ کردار ادا نہیں کیا جو قومی رہنماﺅں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں نے اپنے ہوس اقتدار کی خاطر اصلاح احوال نہ ہونے دی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اسلام دشمن قوتوں نے سکھ کا سانس لیا اور ان کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ اب یہ ابھرتی ہوئی اسلامی قوت کمزور ہو گئی ہے لیکن جب روس نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو پاکستان کی افواج نے افغانیوں کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ ملکر دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور کو شکست فاش دی اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گیا اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے محسنوں نے شب و روز محنت کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی قوت بنا کر پھر دنیا کو حیرت میں ڈال دیا (ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے)۔ جس کے بعدملک دشمن قوتیں پھر متحد ہو گئیں ہیں اور آج وہی کھیل بلوچستان‘ وزیرستان‘ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لہٰذا قومی لیڈر شپ کو متحد ہو کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اپنے اپنے سیاسی ایجنڈوں کو بالائے تاک رکھتے ہوئے موجودہ پاکستان کے استحکام‘ بقا اور نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کیلئے افواج پاکستان‘ مشائخ عظام‘ علمائے کرام‘ وکلائ‘ تاجر‘ سول سوسائٹی‘ خواتین‘ نوجوانوں کو غرضیکہ ہر مکتبہ فکر کے شخص کو میدان عمل میں نکلنے کی ضرورت ہے۔ وطن عزیز ہے تو ہم ہیں پاکستان سے ہی ہماری عزت‘ شناخت‘ سیاست‘ کاروبار اور وقار ہے۔ آمدہ سال انتخابات منعقد ہو رہے ہیں 18 کروڑ عوام کا یہ فرض ہے کہ ایسی قیادت کو منتخب کریں جو وطن عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے ملک سے کرپشن‘ مہنگائی‘ لوڈشیڈنگ ختم کرے‘ تعلیم کو فروغ دے اور بے سہاروں کا سہارا بنے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے‘ بھیک مانگنے کا کشکول توڑ سکے‘ اقوام عالم میں پاکستان کا مقام بلند کر سکے۔ .... (ختم شد)