ضرورت بلاشبہ ایجاد کی ماں تصور کی جاتی ہے۔ یہ ضرورت ہی آسان زندگی کی بنیاد ہوتی ہے۔ پہاڑوں کی غاروں کو انسان نے اپنا پہلا گھر بنایا تھا۔ سردی اور گرمی کی شدت سے بچاﺅ کےلئے وہ غاروں میں چھپ جاتا تھا۔ دشمنوں سے اپنی حفاظت کےلئے بھی وہ غاروں کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ جانوروں کا گوشت انسان کی اولین خوراک میں شامل تھا۔ جانوروں کی کھالیں اور درختوں کے پتے انسان کا لباس ہوتا تھا۔
پتھر کا زمانہ ختم ہوا تو لوہے کا زمانہ شروع ہوا۔ لوہے کو انسان نے اپنی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے کےلئے استعمال کیا۔ سوئی سے ہوائی جہاز تک بنانے کےلئے انسان نے لوہے کو استعمال کیا۔ ”لوہا اور انسان“ آج بھی ساتھ ساتھ محوِ سفر ہوتے ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے جدا کرنا شاید ممکن نہ ہو۔ وہ اقوام اور گروہ جنہوں نے لوہے کے استعمال کو نہ سیکھا ہے وہ پسماندہ کہے جاتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم حاصل کرنے کے بعد اہل مغرب اس وقت دنیا کے حقیقی حکمران بن چکے ہوئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک مغربی دنیا کے مقروض ہیں۔ انہوں نے مغرب سے اس قدر قرضے حاصل کئے ہوئے ہیں کہ وہ ان قرض کی رقوم پر اٹھنے والی سود کی رقوم کو بھی ادا کرنے کے قابل نہیںہیں۔ پاکستان اس وقت 60 بلین ڈالرز کا مقروض ملک بن چکا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم نام کے آزاد ہیں۔ کتنے دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ امریکہ کی مخالفت کی وجہ سے ہم ایران سے اپنی مرضی سے سستا تیل اور گیس نہیں خرید سکتے۔
پاکستان اس وقت انرجی کے شدید بحران میں پھنسا ہوا ہے۔ کالا باغ ڈیم محض اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہم نہ بنا سکے ہیں۔ ہماری ہزاروں فیکٹریاں انرجی نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔ اس وقت دن رات بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری قومی زندگی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ تیل اور گیس دونوں دن بدن مہنگے ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے غریب اور درمیانہ درجہ کے لوگ غربت اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بے روزگاری عام ہو چکی ہے۔ لاکھوں نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار ہونے کی بناءپر زندگی سے ہی مایوس نظر آتے ہیں۔ ان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر ہوتا جارہا ہے۔
میرے نزدیک پاکستان اور پاکستانی قوم کا سب سے بڑا دشمن جہالت ہے۔ غربت بھی جہالت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ کیا یہ ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم اپنے سب سے بڑے دشمن جہالت کو سب سے پہلے ختم کریں؟ اسکے بعد ملک سے غربت خودبخود ختم ہوتی چلی جائیگی۔ جب انسان میں تعلیم اور بامقصد تعلیم سے شعور پیدا ہوگا تو وہ غربت کو ترجیحی بنیادوں پر ختم کریگا۔ پاکستان میں کروڑوں ایکڑ قابل کاشت اراضی بے کار پڑی ہے۔ اس اراضی کو بے روزگار اور غریب لوگوں میں برائے نام قیمت پر تقسیم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ جب لوگ اراضی کے مالک بن جائیں گے تو وہ اپنی دن رات کی محنت سے اس کو لہلہاتے کھیتوں اور باغات میں بدل دیں گے۔ آپ بلوچستان کے علاقہ زیارت میں جائیں اور دیکھیں کہ وہاں کے غیور بہادر اور محب وطن لوگوں نے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر زمین کو باغات میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگ دور دور سے مٹی ٹرکوں پر لاد کر لاتے ہیں اور پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی ہوئی زمین پر اس کو بالکل ”کھاد“ کی طرح بکھیر دیتے ہیں۔ ان پہاڑوں پر آپ کو ان گنت باغات ہی باغات نظر آئیں گے۔ وہاں کے لوگ محنتی اور جفاکش ہیں وہ لوگ اسلام اور پاکستان سے والہانہ محبت اور پیار کرتے ہیں۔ وہ مہمانوں کی اس طرح خدمت کرتے ہیں کہ گویا یہ مہمان آسمان سے اُترے ہوئے ہوں۔ مہمانوں کےلئے وہ لوگ اعلیٰ سے اعلیٰ خوراک اور رہائش کا بندوبست کرتے ہیں۔ وہ مہمانوں کےلئے اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
مین وادی¿ زیارت کے عظیم لوگوں کا کچھ دنوں کےلئے مہمان بنا تھا۔ میں ان لوگوں کی مہمان نوازی کو ساری زندگی نہ بھول سکوں گا۔ وہ مہمان چاہے امیر ہو چاہے غریب ہو ہر ایک کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں گے۔ وہ اپنے گھروں کے دروازے مہمانوں کےلئے کھول دیتے ہیں۔ افسوس صدر افسوس کہ ہم پاکستان کے اس خطے میں رہنے والے لوگ ان بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے عظیم پاکستانیوں جیسی مہمان نوازی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ میں تو ان لوگوں کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہوں۔ وہ واقعی عظیم تر پاکستانی لوگ ہیں۔ ان لوگوں کے ہاں ابھی تک موجودہ دور کی ترقی کے دروازے ہرگز نہ کھلے ہیں حکمران ان پسماندہ علاقوں کی ترقی کےلئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کریں۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرزمین پر ”جدید موٹر ویز“ کے جال بچھا دو۔ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ”موٹر ویز“ کی تعمیر ہوگی تو یہ تمام پسماندہ علاقے تیز رفتار ترقی سے ہمکنار ہو جائیں گے۔ خوشحالی اور جدید زندگی اِن لوگوں کا مُقدر ہوگی۔ چین ہمارا ایک عظیم دوست اور ہمسایہ ملک ہے۔ چین کی ترقی موجودہ دور کی ایک عظیم الشان مثال بن چکی ہے۔
”چین“ پاکستان اور عالم اسلام کا ایک زندگی بھر کا دوست اور ساتھی ملک ہے۔ بلاشبہ چین دنیا کی ایک سُپر پاور بن چکا ہوا ہے۔ جلد ہی چین ترقی کی دوڑ میں امریکہ اور یورپ سے بھی بہت آگے جا چُکا ہوگا۔ میں پاکستان کے حکمرانوں کو کہوں گا کہ وہ چین کے ساتھ اور گہرے تعلقات قائم کریں۔ چین کی عظیم الشان ترقی کو اہل پاکستان ایک نمونہ کے طور پر دیکھیں۔ ترقی کے میدانوں میں پاکستان کو دوسرا چین اور جاپان بنا ڈالو۔ اسی میں ہمارا مستقبل پوشیدہ ہے۔ اگر ہم معاشی اور اقتصادی میدانوں میں عظیم الشان ترقی نہیں کریں گے تو ہم یقینی طورپر اپنی آزادی اور حاکمیت اعلیٰ کی حفاظت بھی نہ کر سکیں گے۔ معاشی ترقی اور دفاعی ترقی دونوں ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ دونوں درست حالت میں ہوں گے تو پھر ہی پاکستان سلامت رہے گا اور خوشحال بھی ہوگا۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔
”سائنس اور ٹیکنالوجی“ میں جنگی بنیادوں پر مہارت حاصل کرو۔ اسی میں ہماری آزاد زندگی کا راز پوشیدہ ہے۔ قومی وسائل کو جدید بنیادوں پر چلاﺅ اور ان سے مالی فوائد حاصل کرتے چلے جاﺅ۔ ”ہر وقت چین کی ترقی کو مشعل راہ بناﺅ“ اور اِسلامی ممالک میں بیداری پیدا ہو چکی ہے۔ وہ ترقی کی طرف رواں دواں ہیں۔ اسلامی دنیا میں اقتصادی اور دفاعی ترقی ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے مکمل ہو سکے گی۔ دیکھو اور غور کرو کہ اسلامی دنیا مشرق سے مغرب تک ایک ہی قطار میں واقع ہے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک تمام مسلمان ملک موجود ہیں۔ اگر ہم سب مسلمان ملک اکٹھے ہو جائیں اور چین سے ہمارا دائمی اتحاد ہو تو دنیا کی کوئی بھی طاقت پاکستان اور اسلامی ممالک کے خلاف میلی نظر نہ ڈال سکے گی۔
اگر ہم پاکستان میں ”کرپشن او کرپشن مافیا“ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں امریکہ اور اہل مغرب سے قطعی طور پر قرضے لینے کی ضرورت نہیں ہو گی اور ہم اقتصادی میدان میں آزاد اور خودمختار ہوں گے۔ خدا کے لئے قرضے لینا بند کر دو۔ اپنے ہی مالی وسائل پر ہمیں انحصار کرنا ہوگا۔ حکمران عیاشی کی زندگی کو ختم کر دیں۔
اسلامی ممالک کا قدرتی اتحاد جمہوریہ چین سے ہوگا۔ چین ہی دنیا کا وہ واحد ملک نظر آتا ہے جو عالم اسلام کے خلاف امریکی چیرہ دستیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ چین اور عالم اسلام قدرتی اتحادی نظر آتے ہیں۔ وہ دونوں آنے والے اوقات میں ایک ہوں گے۔ موجودہ صدی چین اور عالمِ اسلام کے درمیان اتحاد و اتفاق کی صدی ہوگی۔