انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار نہ دینے پر حنا ربانی پریشان کیوں؟

گزشتہ ہفتے کا سب سے حیرت انگیز اور پاکستانیوں کیلئے خوش کن واقعہ یہ ہے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے باوجود وفاقی وزیر تجارت مخدوم امین فہیم نے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے انکار کر دیا جس پر وفاقی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر انتہائی برہم رہی۔ انہوں نے شدید تنقید کی ہے کہ جب وفاقی کابینہ نے منظوری دیدی تھی کہ انڈیا کو یکم جنوری 2013ءتک پسندیدہ ملک قرار دے دیا جائے گا تو پھر مخدوم امین فہیم کی وزارت تجارت نے درمیان میں رختہ کیوں ڈالا۔ ادھر مخدوم امین فہیم کا کہنا ہے کہ اس اہم مسئلہ پر پاکستانی بزنس کمیونٹی کے شکوک و شہبات کو ختم کئے بغیر پاکستان انڈیا کو پسندیدہ ملک کا درجہ قرار نہیں دے سکتا حیرت ہے حنا ربانی کھر کو نجانے انڈیا کی حکومت نے کیا خواب دکھائے ہیں کہ انہوں نے انڈیا کو پسندیدہ ملک قرار نہ دینے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے اور حقائق کا ادراک کئے بغیر کہ اگر انڈیا کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے دیا جاتا ہے تو پاکستان کی معیشت پر اس کے کتنے گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے یہی نہیں بلکہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان نے عالمی عدالت سے بھی رجوع کیا ہوا ہے انڈیا کو حکومتی سطح پر پسندیدہ ملک قرار دینے سے پاکستان سندھ طاس معاہدہ کے حوالے سے اپنا کیس جیتنے سے پہلے ہی ہار جائے گا کیونکہ پوری دنیا پاکستان کی نیک نیتی پر شک کرے گی کہ ایک طرف تو انڈیا کو پسندیدہ ملک کا سرکاری درجہ دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس ملک کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جا رہا ہے صرف یہی ایک نکتہ نہیں بلکہ انٹرنیشنل انٹلکچوائل رائٹس کے بھی متعدد مقدمات دائر ہیں جن میں پاکستان نے ان دعوﺅں کی نفی کی ہے جس کے مطابق بہت سی پاکستانی اور جن کی مصنوعات کو انڈیا نے اپنا قرار دیکر اس کے مکمل انٹرنیشنل انٹلکچوئل رائٹس حاصل کرنے کے لئے دعویٰ کیا ہوا ہے انڈیا کو پسندید ملک قرار دینے سے کشمیر کا مسئلہ بھی دنیا کی نظر میں اہم نہیں رہے گا کیونکہ بھارت دنیا کو بتائے گا کہ اب اس مسئلہ پر عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اب پاکستان کی طرف سے پسندیدہ ملک قرار دیئے جانے کے بعد ہم پاکستان سے اپنے مسائل آپس میں بیٹھ کر حل کر لیں گے۔ اور دوسری طرف پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی آنکھیںآزاد کشمیر میں انڈین فوج کی گولہ باری اور دراندازی سے بھی کھل جانی چاہئیں اب یہ معلوم نہیں کہ انڈین فوج نے روایتی گولہ باری پر اکتفا کیوں نہیں کیا کیونکہ پاکستان انڈیا کے بارڈرز پر چاند ماری تو معمول کاقصہ ہے لیکن اس مرتبہ شائد کرکٹ کے میدان میں پاکستان سے شکست نے انڈین فوجیوں کو جارحانہ پیش قدمی پر مجبور کر دیا اب یہ الگ بات ہے کہ جب پاک فوج نے جوابی کارروائی کی تو انڈین فوجی حسب روایت میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور اپنے علاقے میں آکر سکھ کا سانس لیا۔ ویسے حنا ربانی کھر کو موجودہ کرکٹ سیریز سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کو شدید ہذیمت سے بچانے کیلئے انڈیا کو تیسرا ون ڈے میچ مفاہمت کی پالیسی کے تحت جیتنے کا موقع دیا لیکن بھارتی میڈیا اور عوام کے غیض و غضب سے مستقبل میں بچنے کے لئے انڈیا نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ وہ آئندہ پاکستان کا دورہ بھی اتنی دیر تک نہیں کرے گا جب تک وہ یہ نہ سمجھے کہ پاکستان میں ان کی سکیورٹی کے انتظامات ان کی فہم کے مطابق ہیں اور یہ سمجھ نہیں آیا کہ کسی نیوٹرل مقام پر کھیلنے سے کیوں انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اپنی خارجہ پالیسی کو متوازن بنائے ہمارے لئے انڈیا اور افغانستان کی سب سے زیادہ اہمیت یہی ہے اسلامی ممالک کے بعد یورپی یونین جاپان اور دوسرے ممالک سے بھی تعلقات مزید خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے چین سے مزید اپنے تجارتی تعلقات بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن