سپریم کورٹ نے ریکوڈک معاہدہ کالعدم قرار دیدیا‘ ٹیتھیان کمپنی کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم

اسلام آباد (اے پی اے + ثناءنیوز + آئی این پی) سپریم کورٹ نے بلوچستان میں حکومت کا موقف تسلیم کرتے ہوئے ریکوڈک معاہدے کو کالعدم قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے 1993ءکے معاہدے کو منسوخ قرار دے کر اس کے تحت معدنیات کی تلاش کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ سوموار کو جاری کئے گئے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں کیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ ٹیتھیان کاپر کمپنی کے ساتھ حکومت پاکستان نے کیا تھا۔ عدالت نے 23 جولائی 1993ءمیں ہونےوالے اس معاہدے کو ملکی قوانین سے متصادم قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریکوڈک گولڈ مائنز کیس کا 16 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ سناےا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ معاہدہ ملک کے منرل رولز اور ملکیت کی منتقلی کے قوانین کےخلاف ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ محسوس ہوتا ہے یہ معاہدہ تحفے کے طور پر غیر ملکی کمپنی کو دیا گیا۔ گورنر بلوچستان اس طرح کے معاہدوں کی منظوری دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ فےصلے کے مطابق معاہدے میں کی گئی تمام ترامیم بھی غیر قانونی اور معاہدے کے منافی تھیں۔ فےصلے مےں کہا گےا معاہدہ منرل اےکٹ کےخلاف تھا۔ معاہدہ مےں غےر ضروری رعاےتےں دی گئےں اور قانون کو بھی نظرانداز کےا گےا۔ عدالت نے معاہدہ کےخلاف دائر تمام درخواستوں کو قابل سماعت قرار دےتے ہوئے نمٹا دےا ہے۔ عدالت نے درخواست گذاروں کے ہرجانے کے دعویٰ کو بھی قبول کےا ہے۔ عدالت نے حکم دےا کہ ٹےتھےان کمپنی درخواست گذاروں کو ہرجانہ ادا کرے۔ چےف جسٹس نے فےصلہ کا پےراگراف 11 اور 12 پڑھ کر سناےا۔ کےس کی سماعت کے دوران عبدالحفےظ پےرزادہ اور بےرسٹر خالد انور نے غےر ملکی کمپنےوں کی نمائندگی کی تھی جبکہ احمر بلال صوفی اور اےڈووکےٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی نے بلوچستان حکومت کی نمائندگی کی۔ کےس کا تفصےلی فےصلہ بعد مےں جاری کےا جائےگا جبکہ ٹےتھےان کمپنی کےس پر نظرثانی درخواست بھی دائر کر سکتی ہے۔ عدالت نے فےصلہ مےں اس بات کا بھی تذکرہ کےا ہے کہ 2006ءمےں بلوچستان ہائی کورٹ مےں رٹ پٹےشن دائر ہوئی تھی تو اس مےں بلوچستان حکومت نے ان درخواستوں کی مخالفت کی تھی لےکن ےہ معاملہ جب بعد مےں سپرےم کورٹ مےں زےر سماعت آےا تو اس وقت بدلے ہوئے حالات کے تحت اب بلوچستان حکومت نے دوبارہ اس کا جائزہ لےنے کے بعد سپرےم کورٹ مےں ان درخواستوں کی تائےد کی ہے جو رےکوڈک معاہدہ اور ٹےتھےان کمپنی کےخلاف تھےں۔ واضح رہے کہ رےکوڈک معاہدہ گذشتہ پانچ سال سے مختلف عدالتوں مےں زےر سماعت تھا جسے پےر کو عدالت عظمیٰ نے کالعدم قرار دےدےا۔ 23 جولائی 1993ءکو غیر ملکی کمپنی سے ہونےوالے اس معاہدے کیخلاف پانچ سال تک کیس عدالتوں میں زیر سماعت رہا۔ خیال رہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری، جسٹس گلزار اور جسٹس اجمل سعید شیخ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اس کیس کا فیصلہ 16 دسمبر کو محفوظ کیا تھا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے غیر ملکی کمپنی ٹی سی سی کےخلاف بلوچستان حکومت اور دیگر کی درخواستیں بھی سماعت کیلئے منظور کر لی ہیں۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ریکوڈک معاہدے سے متعلق ٹیتھیان کمپنی کا اب کوئی حق باقی نہیں رہا۔ جولائی 1993ءمیں وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکوڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔ 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کیلئے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لئے بغیر مزید کام کرنے کیلئے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔ بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی طرف سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ معاہدہ میں ترامیم کی مشرف دور کے گورنر نے منظوری دی تھی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان حکومت کا کہنا تھا کہ اس وقت کے گورنر نے خود سے ہی فیصلہ کر لیا تھا، کسی غیر ملکی کمپنی کو حق نہیں کہ اس سے ریکوڈک معاہدہ کیا جائے۔ ٹیتھیان کمپنی کے ساتھ معاہدہ غیر قانونی تھا۔ حکومتِ پاکستان اور کینیڈین کمپنی کا معاہدہ ملکی قوانین کیخلاف ہے‘ معاہدہ قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں کیا گیا‘ معدنیات کی تلاش کا کام غیر قانونی ہے۔ ایک موقع پر ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بھی اس منصوبے سے متعلق سپریم کورٹ کو بریف کیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈِک کے مقام پر 2.2 ارب ٹن کے قریب سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں جو دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ یکم فروری 2011ءکو اس وقت کے پاکستان کے وزیر پٹرولیم سید نوید قمر نے ایوان بالا سینٹ کو بتایا تھا کہ پاکستان میں تیرہ سو انتالیس اعشاریہ پچیس ٹن سونے اور ستر سے زیادہ ٹن چاندی کے ذخائر موجود ہیں۔ 26 سینیٹروں نے فریق بننے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کرائی تھیں جن میں اعظم سواتی بھی شامل تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ فریقفین عدالتی فیصلے سے اگر متفق نہیں ہیں تو وہ اس بارے میں نظرثانی کی اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن